طلبا کا الزام ہے کہ آئی آئی ٹی کی طالبہ فاطمہ لطیف کو مذہب کے نام پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد وہ ذہنی دباؤ میں آکر خودکشی جیسے مہلک اقدام اٹھانے پر مجبور ہوئیں۔
خود کشی سے پہلے فاطمہ نے بہت سے لوگوں کے نام لکھنے والا ایک خط بھی چھوڑ دیا تھا لیکن ابھی تک قصورواروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ طالبہ کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ہم نے احتجاجی مارچ نکالا ہے۔
اے ایم یو کے طلبا نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا ہے کہ پورے معاملے میں اعلی سطحی تفتیش کرکے ملزمین کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
غور طلب ہے کہ کیرالہ کے کولم کی رہنے والی فاطمہ لطیف آئی آئی ٹی مدراس میں ایم اے فرسٹ ایئر کی طالبہ تھیں۔ فاطمہ آئی آئی ٹی انٹرنس امتحان میں قومی سطح پر ٹاپر رہیں تھیں۔
گذشتہ سنیچر کی صبح فاطمہ کی لاش ان کے ہاسٹل میں ملی۔ طبی رپورٹ کے مطابق انہوں نے پھانسی لگا کر خودکشی کر لی تھی۔
وہیں اساتذہ نے بتایا کہ ہیومینیٹیز اینڈ ڈیولپمنٹ اسٹڈیز شعبے کی طالبہ فاطمہ کافی ہونہار اور ذہین تھیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق فاطمہ کے والد نے انصاف کی مانگ کرتے ہوئے وزیراعظم نریندرمودی کو بھی خط لکھا ہے۔ والد عبداللطیف نے ایک انگریزی اخبار کو بتایا کہ 'فاطمہ نے کبھی ایسی کوئی بات یا حرکت نہیں کی جس سے لگے کہ وہ خودکشی کر لے گی'۔
کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق فاطمہ کے والد نے دعویٰ کیا ہے کہ میری بیٹی کو اس وجہ سے ٹارچر کیا جارہا تھا کہ وہ مسلمان ہو کر ٹاپر تھی۔ والد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کے ساتھ کمیونٹی اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا جارہا تھا۔ میری بیٹی نے کچھ دن قبل بتایا تھا کہ اس کا نام ہی اپنے آپ میں ایک مسئلہ بن گیا ہے۔
اے این آئی کے مطابق چینئی پولیس کمشنر اے کے وشوناتھن کا کہنا ہے کہ 'انھوں نے جائے واردات کا معائنہ کیا اور سچائی کا پتہ لگانے کے لیے کئی لوگوں سے پوچھ تاچھ کی۔ انھوں نے کہا کہ یہ کیس سینٹرل کرائم برانچ کو ٹرانسفر کر دیا گیا ہے'۔