ETV Bharat / bharat

مسلمان بے خوف رہیں، سب اچھا ہوگا: آر ایس ایس

آر ایس ایس کے اعلیٰ عہدہ داروں نے آج قوم کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ سپریم کورٹ کے کسی بھی نوعیت کے ایودھیا فیصلے پر اکثریت کا ردعمل محتاط ہوگا، لہذا اقلیت کسی نفسیاتی خوف کا شکار نہ رہے۔

RSS leaders, file photo
author img

By

Published : Nov 7, 2019, 12:02 AM IST


ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کے جوائنٹ سکریٹری ڈاکٹر کرشن گوپال اور پرچارک رام لال نے دارالحکومت دہلی میں اردوکے اہم اخبارات، اردو نیوز ایجنسیوں اور اردو ٹی وی چینلوں کے نمائندوں سے ایک ملاقات میں ان سے درخواست کی کہ وہ ایودھیا فیصلے سے پہلے اور فیصلہ سامنے آنے کے بعد کسی ایسے ردعمل کی خبر کو منہ نہ لگائیں جن سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل پڑ سکتا ہو۔

ڈاکٹر گوپال نے کہا کہ 'مسلمان بے خوف رہیں اور کسی اندیشے کو دل میں جگہ نہ دیں۔ رام لال نے کہا کہ ' انشا اللہ سب اچھا ہوگا۔'

اکثریت کی نمائندگی کرنے والے دونوں رہنماوں نے امید ظاہر کی کہ اقلیتی فرقے کے ذمہ داران بھی ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے اسی جذبے سے کام لیں گے تاکہ قومی اتحاد و یگانگت کے ایک نئے عہد کا آ غاز ہو۔

ڈاکٹر گوپال نے کہا کہ دونوں فرقوں کو از سر نو اس ادراک سے کام لینا چاہئے کہ بھارت دنیا کے دیگر ممالک سے ایک الگ پہچان رکھتا ہے جہاں ایک سے زیادہ مذہبی اورنظریاتی حلقے روادری کے نام ایک دوسرے کو محض برداشت نہیں کرتے بلکہ دل سے قبول کرتے ہیں۔

کسی ملک کا نام لیے بغیر ڈاکٹر گوپال نے کہا وہاں ہم مذہبوں میں وہ روادی نہیں جو بھارت میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا بعض تاریخی غلطیوں کے باوجود بھارتی رواداری 'ایک دوسرے کو برداشت کرنے والی نہیں بلکہ قبول کرنے والی ہے۔'

مسٹر رام لال نے کہا کہ ہر ناموافق واقعے کو کسی نظریاتی تنظیم یا جماعت سے جوڑ کر دیکھنے سے اکثریت اور اقلیت دونوں کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ البتہ اس سے غلط فہمیوں کو راہ دینے والی دوریاں بڑھیں گی۔یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اکثریتی اور اقلیتی معاشرے بالترتیب کسی سنگھ یا کسی تنظیم کے کنٹرول میں نہیں۔اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی آنکھ بند کر کے بھروسہ نہ کیا جائے۔

ڈاکٹر گوپال نے اردو اخبار نویسوں کو مشورہ دیا کہ وہ آرٹیکل اور کالموں کے ذریعہ پسند اور ناپسند میں الجھے لوگوں کو صحیح اور غلط میں فرق کرنا سکھائیں اور ایک ایسے رابطے کو فروغ دیں جو مفاہمت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرے۔

ہندو معاشرے کو متوازن بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حملے اور عبادت گاہیں توڑنے کے واقعات کے پس منظر میں ایودھیا مقدمہ اگر سرے سے چلتا ہی نہیں تو ابتک کھائیاں پٹ چکی ہوتیں۔ بہر حال وقت کا تقاضہ ہے کہ آنے والے فیصلے کو ہار جیت کی لڑائی پر محمول کرنے کے بجائے ایک درمیانی راہ کے طور پر ہم سب تسلیم کریں۔


ہندو قوم پرست تنظیم آر ایس ایس کے جوائنٹ سکریٹری ڈاکٹر کرشن گوپال اور پرچارک رام لال نے دارالحکومت دہلی میں اردوکے اہم اخبارات، اردو نیوز ایجنسیوں اور اردو ٹی وی چینلوں کے نمائندوں سے ایک ملاقات میں ان سے درخواست کی کہ وہ ایودھیا فیصلے سے پہلے اور فیصلہ سامنے آنے کے بعد کسی ایسے ردعمل کی خبر کو منہ نہ لگائیں جن سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل پڑ سکتا ہو۔

ڈاکٹر گوپال نے کہا کہ 'مسلمان بے خوف رہیں اور کسی اندیشے کو دل میں جگہ نہ دیں۔ رام لال نے کہا کہ ' انشا اللہ سب اچھا ہوگا۔'

اکثریت کی نمائندگی کرنے والے دونوں رہنماوں نے امید ظاہر کی کہ اقلیتی فرقے کے ذمہ داران بھی ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے اسی جذبے سے کام لیں گے تاکہ قومی اتحاد و یگانگت کے ایک نئے عہد کا آ غاز ہو۔

ڈاکٹر گوپال نے کہا کہ دونوں فرقوں کو از سر نو اس ادراک سے کام لینا چاہئے کہ بھارت دنیا کے دیگر ممالک سے ایک الگ پہچان رکھتا ہے جہاں ایک سے زیادہ مذہبی اورنظریاتی حلقے روادری کے نام ایک دوسرے کو محض برداشت نہیں کرتے بلکہ دل سے قبول کرتے ہیں۔

کسی ملک کا نام لیے بغیر ڈاکٹر گوپال نے کہا وہاں ہم مذہبوں میں وہ روادی نہیں جو بھارت میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا بعض تاریخی غلطیوں کے باوجود بھارتی رواداری 'ایک دوسرے کو برداشت کرنے والی نہیں بلکہ قبول کرنے والی ہے۔'

مسٹر رام لال نے کہا کہ ہر ناموافق واقعے کو کسی نظریاتی تنظیم یا جماعت سے جوڑ کر دیکھنے سے اکثریت اور اقلیت دونوں کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ البتہ اس سے غلط فہمیوں کو راہ دینے والی دوریاں بڑھیں گی۔یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اکثریتی اور اقلیتی معاشرے بالترتیب کسی سنگھ یا کسی تنظیم کے کنٹرول میں نہیں۔اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی آنکھ بند کر کے بھروسہ نہ کیا جائے۔

ڈاکٹر گوپال نے اردو اخبار نویسوں کو مشورہ دیا کہ وہ آرٹیکل اور کالموں کے ذریعہ پسند اور ناپسند میں الجھے لوگوں کو صحیح اور غلط میں فرق کرنا سکھائیں اور ایک ایسے رابطے کو فروغ دیں جو مفاہمت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرے۔

ہندو معاشرے کو متوازن بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حملے اور عبادت گاہیں توڑنے کے واقعات کے پس منظر میں ایودھیا مقدمہ اگر سرے سے چلتا ہی نہیں تو ابتک کھائیاں پٹ چکی ہوتیں۔ بہر حال وقت کا تقاضہ ہے کہ آنے والے فیصلے کو ہار جیت کی لڑائی پر محمول کرنے کے بجائے ایک درمیانی راہ کے طور پر ہم سب تسلیم کریں۔

Intro:Body:

article id 


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.