بہرائچ: ریاست اترپردیش کے ضلع بہرائچ کے کوتوالی نانپارہ علاقے کے بھگاپوروا گاؤں میں پولیس نے ایک پادری کو گرفتار کیا ہے۔ پادری پر الزام ہے کہ اس نے اتوار کو ایک گھر میں میٹنگ کا اہتمام کیا تاکہ گاؤں والوں کو مبینہ طور پر عیسائیت کی ترغیب دی جا سکے، جس کے خلاف ہندو شدت پسند تنظیموں نے احتجاج کیا اور پولیس کو اطلاع دی۔ اس کے بعد مقامی پولیس اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر پادری کو مذہبی صحیفے کے ساتھ پکڑ لیا، جس کے بعد وہاں موجود خواتین مشتعل ہوگئیں۔ خواتین نے پادری کو پولیس اہلکاروں سے چھڑانے کی کوشش کی۔ اس دوران وہاں موجود ہندو شدت پسند تنظیموں سے وابستہ کارکنان اور خواتین کے درمیان جھڑپ ہوگئی۔ تاہم احتجاج کے درمیان پولیس پادری کو اپنے ساتھ لے گئی۔
گاؤں والوں کے مطابق یہاں گزشتہ ایک ماہ سے دعائیہ مجلس کا اہتمام کیا جا رہا تھا۔ اس پر وشو ہندو پریشد کے کوآرڈینیٹر دیپک سریواستو نے پولیس کو شکایت کی۔ تحریر کے مطابق موتی پور کی ماجھو کالونی کے رہنے والے انیل کمار، مالتی دیوی، تاج پور ٹیڈیا کے رہنے والے رام نارائن، بچراج اور نانکے، محمدی ہار کے رہنے والے آکاش سمیت سینکڑوں لوگوں نے بھگا پوروا گاؤں میں ہندو دیوی اور دیوتاؤں کی مبینہ طور پر توہین کرتے ہوئے قابل اعتراض الفاظ کا استعمال کیا۔ یہاں موجود پادری نے لوگوں کو عیسائیت اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ پولیس پورے معاملے کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس واقعہ کی وجہ سے ہندو تنظیم سے وابستہ لوگوں میں کافی ناراضگی ہے۔
مزید پڑھیں:۔ Religious Conversion In UP اترپردیش میں تبدیلی مذہب کے کیسز میں اضافہ، دو سال میں 833 افراد گرفتار
ایس پی پرشانت ورما نے بتایا کہ واقعہ کی اطلاع موصول ہوئی ہے اور کیس کی تفتیش کی جا رہی ہے جبکہ اے ایس پی رورل ڈاکٹر پاویترا موہن ترپاٹھی نے کہا کہ علاقائی باشندوں کی جانب سے ایک پجاری پر لوگوں کو گمراہ کرنے اور ان کا مذہب تبدیل کرنے کا الزام لگایا گیا۔ دیوتاؤں پر نازیبا تبصرہ کرنے اور انہیں دوسرے مذاہب کے لیے اکسانے کے الزام میں چھ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ معاملے کی تحقیقات کے بعد کارروائی کی جا رہی ہے۔