کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس ( کے اے ایس) کے نتائج آ چکے ہیں۔ ان امتحانات میں اول پائیدان حاصل کرنے والی سری نگر کی رہنے والی 27 برس کی ملک کاملہ مشتاق کا کہنا ہے کہ 'اگر محنت لگن اور حوصلہ ہو تو ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے اور ہر منزل آپ کے قدم چومتی ہے۔'
ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کے دوران کاملہ کا کہنا تھا کہ 'مجھے بچپن سے ہی عوام کی خدمت کرنے کا شوق تھا تاہم انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جب میرے والدین نے مجھے مزید اعلی تعلیم حاصل کرنے کو کہا میں نے اپنی خواہش ان کے سامنے ظاہر کی۔ پھر ہر قدم پر مجھے ان کا ساتھ ملتا رہا اور آج میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکی ہوں۔'
کاملہ سری نگر کے کرننگ علاقے میں رہتی ہیں اور ان کی ابتدائی تعلیم سری نگر کے ایک نجی سکول سے ہوئی ہے۔ والد سرکاری ملازم رہ چکے ہیں اور والدہ ابھی بھی سرکاری ملازمت کرتی ہیں۔ کاملہ نے سن 2018 میں کے اے ایس کے ابتدائی امتحانات دیے تھے، پھر سنہ 2019 میں مینز کے امتحانات دیے اور آخر میں 2020 میں امتحانات کا انٹرویو مرحلہ بھی پار کیا۔ ان امتحانات میں انہیں 1118.33 نمبرات حاصل ہوئے اور کامیاب ہونے والے 70 امیدواروں کی فہرست میں اول پائیدان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 'کتابی کیڑا بننے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جب آپ ایک کمپیوٹر ٹی امتحانات کے لیے تیاری کر رہے ہوں تب آپ کو اپنا وقت صحیح طریقے سے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ پڑھائی بھی اور دیگر چیزیں بھی ساتھ ساتھ رکھنی ہوتی ہیں۔ میں پینٹنگ کرتی ہوں اور انڈور گیمز بھی کھلتی ہوں لیکن ساتھ ساتھ پڑھائی بھی پوری دلچسپی کے ساتھ کرتی تھی۔'
یہ بھی پڑھیں: دیوسر علاقے سے 'کے اے ایس' امتحان کا پہلا کامیاب امیدوار
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اب آئی ایس کی تیاری بھی کری گی اور اگر خدا نے چاہا تو اس میں بھی کامیاب ہوں گی۔
جہاں ایک طرف کاملہ کے گھر پر رشتے داروں اور دوستوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے وہیں وہ اپنی کامیابی کا سہرا اپنے والدین کے سر باندھ رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں آج تک کبھی رسوئی کھانے میں نہیں گئی ہوں۔ میری والدہ ہیں میری خدمت کرتی تھیں۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں اپنے والدین کی حمایت کی وجہ سے ہوں۔ انجینئرنگ چھوڑنے کے فیصلے سے لے کر ایک سرکاری سکول میں بطور ٹیچر کام کرنے تک میرے والدین نے میرا ہمیشہ ساتھ دیا۔ جب میں ایک سرکاری سکول میں ٹیچر تھیں طلباء کو پڑھاتے پڑھاتے میری پرسنالٹی میں کافی بہتری آئی۔ آج میں کچھ انجینئر ہوں کچھ استاد ہوں۔'
وہیں ان کی والدہ تسلیمہ مشتاق کا کہنا ہے کہ 'بیٹی کی کامیابی سے ہم بہت خوش ہیں۔ مجھے اپنی بیٹی کے ہر فیصلے پر ہمیشہ سے اعتماد تھا اور آج ہمارا یقین مزید بڑھ چکا ہے۔ ہم بہت خوش ہیں۔'
مشتاق احمد ملک کاملہ کے والد جو خود بھی جموں و کشمیر انتظامیہ میں آفیسر رہ چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ جب میری بیٹی نے میرے سامنے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ اعلی تعلیم نہیں انتظامیہ کہ امتحانات میں حصہ لینا چاہتی ہے تو میں نے ان کی خواہش اور ارادے کی قدر کرتے ہوئے پوری حمایتی کی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ایسا کر پائیں گی اور انہوں نے آج کر کے دکھایا ہے۔'