کشمیر میں طلباء تقریباً نو مہینوں سے اسکولوں سے دور ہیں، گزشتہ برس پانچ اگست کو انتظامیہ نے کرفیو نافذ کرکے لوگوں کے نقل و حمل پر قدغن عائد کر دی تھی۔
اس روز مرکزی سرکار نے دفعہ 370 کو کالعدم کرکے جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کرکے مرکز کے زیرانتظام دو خطوں میں تقسیم کر دیا۔ سات ماہ بند رہنے کے بعد وادی میں اسکول فروری میں کھولے گئے تھے۔
تاہم کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر جموں و کشمیر میں 11 مارچ کو تمام تعلیمی ادارے بند ہوئے تھے۔ اس لمبے عرصے کے لئے بچوں کا اسکولوں سے دور رہنے سے نہ صرف ان کی تعلیم بری طرح متاثر ہو رہی ہے بلکہ ان کی تعلیم میں دلچسپی کم ہونے کے بھی خدشات ہیں۔ گھروں میں محدود رہنے سے انکے کھیل کود کی سرگرمیاں بھی بند ہو چکی ہیں۔
12 برس کی دانیہ قیوم لاک ڈاؤن کے دوران گھر میں محدود ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ اسکول نہیں جا پا رہی ہے۔ اس کے کھیل کود کا میدان گھر کے کمرے بن گئے ہیں۔اس کو سہیلیوں اور اساتذہ کی یاد آرہی ہے اور فون یا ویڈیو کال کے ذریعے ہی وہ ان سے رابطہ کر سکتی ہے۔
تعلیم کتابوں تک محدود ہے جبکہ انٹرنیٹ سے بھی وہ استفادہ کر رہی ہے لیکن 4G پر پابندی سے آن لائن کلاسز لینا دقتوں سے کم نہیں۔
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بچوں کے گھر میں محدود ہونے سے اور کووڈ-19 کے خوف سے ذہنی دباؤ بڑھ سکتا ہے جس کے اثرات مستقبل میں جانچے جا سکیں گے۔
سرینگر گورنمٹ میڈیکل کالج کے شعبہ نفسیات میں پروفیسر ڈاکٹر ارشد حسین نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اسکول، گھر اور کھیل کے میدان بچوں کی مکمل تربیت اور نشو نما ہوتی ہے، لیکن موجودہ حالات میں وہ گھروں محدود ہوگئے ہیں جس کے لئے والدین کو ایک شیڈول بنا کر اس کے تحت انکی دیکھ بال کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔