جموں و کشمیر میں سیب کی کاشت کے علاوہ ڈرائی فروٹس کی بھی کافی بڑے پیمانے پر پیداوار کی جاتی ہے، ڈرائی فروٹس میں بادام کی کاشتکاری نہایت ہی خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہے۔
درختوں پر بادام کے شگوفے نکلنے کے ساتھ ہی کسانوں کا کام شروع ہوجاتا ہے اور چھ ماہ میں چار مراحل سے گزرنے اور بڑی مشقت کے بعد فروخت کرنے کے لائق بنایا جاتا ہے۔
اگست میں بادام کو درختوں سے اتارنے کے بعد انہیں چھلکوں سے الگ کرنے اور خشک کرنے کے بعد چھوٹے کسان اپنے بادام کی فصل کو بڑے کاروباریوں کو فروخت کرتے ہیں۔ چوتھے مرحلے میں بادام کے اندر موجود گودے کو نکال کر صاف کرتے ہیں اور صاف بادام کو پیک کرنے کے بعد بازاروں میں فروخت کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
بادام کی فصل تیار کرنے میں کسانوں کو متعدد مرحلوں اور سخت مشقت سے گزرنا پڑتا ہے، لیکن کسانوں کو اپنی محنت کی معقول قیمت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اب پریشان حال کسان بادام کے درختوں کو کاٹنے پر مجبور ہیں۔
اس سلسلہ میں ایک فیاض احمد نامی کارباری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر دوسرے فصلوں کو دیکھا جائے تو سرکار ان فصلوں کو لے کر کافی سنجیدہ نظر آرہی ہے آئے روز نئی نئی اسکیمیں متعارف کرتے ہے لیکن انتظامیہ بادام کی فصل کو لے کر سرکار سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے جس کی وجہ سے کسانوں کے ساتھ ساتھ بیوپاریوں کو بھی نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور یہ صنعت اب زوال پذیر ہونے کی دہانے پر ہے یہاں کشمیر میں اس کے لیے دوسری میوہ جات کی طرح ہیں ایک منڈی ہونی چاہیے جہاں پر ہم اپنے م کے تیار کردہ مال بیچ سکے۔
بادام کے کاشتکاروں کی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ کشمیر میں دوسرے میوہ جات کی طرح بادام کی بھی ایک منڈی ہونی چاہیے، جہاں پر وہ اپنے تیار کردہ بادام کو فروخت کر سکیں۔
محمکہ باغبانی کے ضلع افسر راکیش کوتوال کے مطابق بادام کی منڈی نہ ہونے کی صورت میں کاشتکار بادام کو اسٹور کرنے کے بعد معقول قیمت ملنے پر اسے فروخت کرسکتے ہیں۔