ETV Bharat / city

سرینگر: ہمیں جنت سے جہنم میں دھکیل دیا گیا

جھیل ڈل سے تقریباً تین سو کنبوں کو منتقل کردیا گیا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کو "جنت سے نکال کر جہنم میں ڈالا گیا ہے"۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے انہیں دلدل والی زمیں میں بسایا جہاں زندگی گزارنا مشکل ہورہا ہے۔

author img

By

Published : Sep 9, 2021, 5:37 PM IST

taken out of heaven and thrown into hell
ہمیں جنت سے جہنم میں دھکیلا گیا ہے

سرینگر کی شہرۂ آفاق جھیل ڈل کو محفوظ رکھنے کے مقصد سے جموں و کشمیر انتظامیہ نے ایک دہائی قبل ڈل میں رہنے والے لوگوں کو منتقل کرنے کا منصوبہ شروع کیا تھا۔ منصوبے کے مطابق ڈل جھیل کے تقریباً دس ہزار کنبوں کو 15 کلومیٹر دور ضلع بڈگام کے مضافات رکھ ارتھ میں بازآبادکاری پالیسی کے تحت بسانا تھا۔

ہمیں جنت سے جہنم میں دھکیلا گیا ہے

تقریباً تین سو کنبوں کو منتقل کیا گیا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کو "جنت سے نکال کر جہنم میں ڈال دیا گیا ہے"۔

رکھ ارتھ علاقہ دلدل والی زمین ہے جہاں لوگوں کو زمین کے پلاٹ دیے گئے۔ اس کے بعد یہاں لوگوں نے اپنے رہائشی مکانات تعمیر کیے ہیں۔

باز آبادکاری منصوبے کے اس نئی بستی میں جدید طرز کی سہولیات دینے کے وعدے کیے گئے تھے جن میں بچوں کے لیے اسکول، ہسپتال اور دیگر روز مرہ کی سہولیات شامل ہیں۔ لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سرکار نے بازآبادکاری منصوبے کے مطابق کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا۔

مقامی لوگوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو پانی کی سپلائی لائن دستیاب نہیں کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بجلی کی ترسیلی لائن بھی ہر گھر کو مہیا نہیں کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈل جھیل کے اردگرد ٹھوس بنیادوں پر انہدامی کارروائی ہوگی

طبی سہولت دستیاب نہ ہونے پر ان کو چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس بستی کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ سہولت بھی نہیں رکھی گئی ہے اور نہ ہی سڑکیں مکمل طور پر تعمیر کی گئی ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے انہیں دلدل والی زمیں میں بسایا جہاں زندگی گزارنا مشکل ہورہا ہے۔ اگر سرکار نے یہ بڑا قدم ڈل کی حفاظت کے لیے اٹھایا تھا، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قدم سے نہ ہی ڈل کی صفائی ممکن ہوپائی اور نہ ہی لوگ اس دلدل والی زمین میں آباد ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرکار نے ڈل کی حفاظت اور ان لوگوں کی بازآبادکاری میں کروڑوں روپیے خرچ کرنے کے دعوے کیے ہیں لیکن زمینی سطح پر کچھ تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔

سرینگر کی شہرۂ آفاق جھیل ڈل کو محفوظ رکھنے کے مقصد سے جموں و کشمیر انتظامیہ نے ایک دہائی قبل ڈل میں رہنے والے لوگوں کو منتقل کرنے کا منصوبہ شروع کیا تھا۔ منصوبے کے مطابق ڈل جھیل کے تقریباً دس ہزار کنبوں کو 15 کلومیٹر دور ضلع بڈگام کے مضافات رکھ ارتھ میں بازآبادکاری پالیسی کے تحت بسانا تھا۔

ہمیں جنت سے جہنم میں دھکیلا گیا ہے

تقریباً تین سو کنبوں کو منتقل کیا گیا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کو "جنت سے نکال کر جہنم میں ڈال دیا گیا ہے"۔

رکھ ارتھ علاقہ دلدل والی زمین ہے جہاں لوگوں کو زمین کے پلاٹ دیے گئے۔ اس کے بعد یہاں لوگوں نے اپنے رہائشی مکانات تعمیر کیے ہیں۔

باز آبادکاری منصوبے کے اس نئی بستی میں جدید طرز کی سہولیات دینے کے وعدے کیے گئے تھے جن میں بچوں کے لیے اسکول، ہسپتال اور دیگر روز مرہ کی سہولیات شامل ہیں۔ لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سرکار نے بازآبادکاری منصوبے کے مطابق کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا۔

مقامی لوگوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو پانی کی سپلائی لائن دستیاب نہیں کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بجلی کی ترسیلی لائن بھی ہر گھر کو مہیا نہیں کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈل جھیل کے اردگرد ٹھوس بنیادوں پر انہدامی کارروائی ہوگی

طبی سہولت دستیاب نہ ہونے پر ان کو چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس بستی کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ سہولت بھی نہیں رکھی گئی ہے اور نہ ہی سڑکیں مکمل طور پر تعمیر کی گئی ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے انہیں دلدل والی زمیں میں بسایا جہاں زندگی گزارنا مشکل ہورہا ہے۔ اگر سرکار نے یہ بڑا قدم ڈل کی حفاظت کے لیے اٹھایا تھا، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قدم سے نہ ہی ڈل کی صفائی ممکن ہوپائی اور نہ ہی لوگ اس دلدل والی زمین میں آباد ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرکار نے ڈل کی حفاظت اور ان لوگوں کی بازآبادکاری میں کروڑوں روپیے خرچ کرنے کے دعوے کیے ہیں لیکن زمینی سطح پر کچھ تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.