ETV Bharat / city

مہمان پرندوں کی آمد میں کمی کیوں؟

وائلڈ لائف وارڈ افشان دیوان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'امسال ایک لاکھ سے زائد مہمان پرندے وادی آچکے ہیں۔ یہ پرندے کئی ہزار میلوں کا سفر طے کر کے وادی آتے ہیں۔

مہمان پرندوں کی آمد میں کمی کیوں؟
مہمان پرندوں کی آمد میں کمی کیوں؟
author img

By

Published : Dec 8, 2020, 6:45 PM IST

موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی لاکھوں کی تعداد میں یورپی ممالک سے مہمان پرندے وادیٔ کشمیر آتے ہیں جہاں گزشتہ دس برسوں میں ان مہمان پرندوں کی آمد میں کمی دکھائی دے رہی ہے۔

وہیں انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس کی وجوہات صرف شکار ہی نہیں بل کی سکڑتی ہوئی آبی پناہ گاہیں بھی ہیں۔

اگرچہ یہ مہمان پرندے نومبر مہینے کے آغاز سے ہی وادی کا رخ کرنے لگتے ہیں۔ تاہم انتظامیہ بھی ان کو محفوظ رکھنے کے لیے کئی اقدامات اٹھاتا ہے جن میں شکاریوں کو اپنی بندوق جمع کرانے کے علاوہ محکمۂ وائلڈ لائف کی جانب سے وادی کی آبی پناہ گاہوں کے دورے شامل ہیں۔

مہمان پرندوں کی آمد میں کمی کیوں؟

وائلڈ لائف وارڈ افشان دیوان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'امسال ایک لاکھ سے زائد مہمان پرندے وادی آچکے ہیں۔ یہ پرندے کئی ہزار میلوں کا سفر طے کر کے وادی آتے ہیں۔ ہم کشمیری اپنی مہمان نوازی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اس لئے ان کو محفوظ رکھنے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'کبھی کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ سامنے آ جاتا ہے جس پر وقت رہتے کارروائی کی جاتی ہے اور قصورواروں کے خلاف معاملہ درج کر کے قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔'

امسال ہوئے دو ناخوشگوار واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'شکاریوں نے حال ہی میں دو نایاب پرندوں کو ہلاک کیا۔ ان کے خلاف کارروائی کی گئی اور اب قصور وار سرینگر کے سینٹرل جیل میں قید ہے۔ ایک دوسرے معاملے میں بھی قصور واروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ یہ سنگین معاملہ ہوتا ہے اور ان پر ذرا بھی ہماری جانب سے لاپروائی نہیں برتی جاتی ہے۔'

مہمان پرندوں کی آمد میں کمی کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'شکاریوں پر ہماری کڑی نظر ہے۔ تاہم 2014 میں آئے تباہ کن سیلاب کے بعد وادی کی آبی پناہ گاہوں میں کافی مربع اکٹھا ہو گیا جس کی وجہ سے ان آبی پناہ گاہوں میں پانی کی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ جب پانی کم ہے تو پرندے کہاں بیٹھیں گے۔ ہمارے محکمے کے پاس فٹنس اور سٹاف دونوں کی کمی ہے۔ اس کے باوجود ہم اپنے طریقے سے کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ وہ ان پناہ گاہوں کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔'

وادی آنے والے مہمان پرندوں میں ٹفٹڈ ڈک، گڑھوال، برہمنی ڈک، گری لیگ گوز، ملاڈ، ناردرن پنٹیل، یوریشین ویژن کے علاوہ کامن ٹیل شامل ہیں۔ یہ پرندے وادی کی آبی پناہ گاہیں جن میں جھیل ڈل، جھیل ولر، ہوکر سر، ہائے گل، شعلہ بو گ اور میرگوند جیسے علاقے میں تقریبا پانچ مہینے تک قیام کر کے واپس لوٹ جاتے ہیں۔

امسال اگرچہ ان پرندوں کی تعداد میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ تاہم محکمے کا ماننا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے ان پرندوں اور وادی کی آبی پناہ گاہوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ناکافی اقدامات کی وجہ سے وہ ان مہمان پرندوں کی اچھی طریقے سے مہمان نوازی نہیں کر پا رہے ہیں۔

رینج آفیسر سہیل قاضی کا کہنا تھا کہ 'یہ پرندے ہمارے آبشاروں اور آبی پناہ گاہوں کی رونق میں چار چاند لگا دیتے ہیں لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ان مہمانوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ شکاریوں سے ہم آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ وائلڈ لائف پروٹیکشن کے قوانین بھی کافی سخت ہے۔ ہماری پریشانی کی وجہ ہے یہاں کی سکڑتی آبی پناہ گاہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'سنہ 2014 میں آئے تباہ کن سیلاب کے بعد محکمۂ اریگیشن اینڈ فلڈ کنٹرول نے یہاں کے دریاؤں کی ضرورت سے زیادہ ڈریسنگ کردی جس کی وجہ سے سارا ملبہ ان آبی پناہ گاہوں میں جمع ہوگیا اور جو پانی کی آمد کی شاہ رگ تھیں وہ بھی بند ہوگئی اور ہماری آبی پناہ گاہیں سوکھ گئی ہیں۔ ہمارے محکمے کے پاس زیادہ فنڈز نہیں ہوتے، تاہم پھر بھی ہم کافی شکر کر رہے ہیں۔"

انتظامیہ سے گزارش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ایک ماسٹر پلان کے تحت ہمارے محکمے نے تجویز پیش کی تھی کی ہوکر سر سے گزرتے ہوئے دریا میں دو واٹر لیول گیٹ نصب کئے جائیں۔ ان گیٹوں کی مدد سے ہوکرسر میں پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔ آج کئی برس گزرنے کے بعد بھی اس پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔ نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ ہمارے مہمانوں کی آمد میں کمی ہو رہی ہے۔ جہاں کے حالات سدھر سکتے ہیں حالانکہ اس میں کچھ وقت لگے گا مگر نا ممکن نہیں ہے۔'

شکاریوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے پرندوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'پہلے تو شکاریوں کے خلاف معاملہ درج کیا جاتا ہے اور انہیں پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے۔ پرندوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم ہوتا ہے جس سے یہ سامنے آتا ہے کہ یہ شکاریوں کی جانب سے کی گئی کارروائی کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ پھر اس ہلاک شدہ پرندے کو دفن کیا جاتا ہے۔ تمام کارروائی کی بائیوگرافی کر کے محفوظ رکھی جاتی ہے۔'

انہوں نے عوام سے بھی گزارش کی کہ 'ان پرندوں کی حفاظت صرف محکمے کا کام نہیں بلکہ ہم سب کا ہے۔ اس لیے ہم سب کو پیش پیش رہنا چاہیے اور اگر کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو ہمارے کنٹرول روم سے رابطہ کرنا چاہئے۔

موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی لاکھوں کی تعداد میں یورپی ممالک سے مہمان پرندے وادیٔ کشمیر آتے ہیں جہاں گزشتہ دس برسوں میں ان مہمان پرندوں کی آمد میں کمی دکھائی دے رہی ہے۔

وہیں انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس کی وجوہات صرف شکار ہی نہیں بل کی سکڑتی ہوئی آبی پناہ گاہیں بھی ہیں۔

اگرچہ یہ مہمان پرندے نومبر مہینے کے آغاز سے ہی وادی کا رخ کرنے لگتے ہیں۔ تاہم انتظامیہ بھی ان کو محفوظ رکھنے کے لیے کئی اقدامات اٹھاتا ہے جن میں شکاریوں کو اپنی بندوق جمع کرانے کے علاوہ محکمۂ وائلڈ لائف کی جانب سے وادی کی آبی پناہ گاہوں کے دورے شامل ہیں۔

مہمان پرندوں کی آمد میں کمی کیوں؟

وائلڈ لائف وارڈ افشان دیوان نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'امسال ایک لاکھ سے زائد مہمان پرندے وادی آچکے ہیں۔ یہ پرندے کئی ہزار میلوں کا سفر طے کر کے وادی آتے ہیں۔ ہم کشمیری اپنی مہمان نوازی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اس لئے ان کو محفوظ رکھنے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'کبھی کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ سامنے آ جاتا ہے جس پر وقت رہتے کارروائی کی جاتی ہے اور قصورواروں کے خلاف معاملہ درج کر کے قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔'

امسال ہوئے دو ناخوشگوار واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'شکاریوں نے حال ہی میں دو نایاب پرندوں کو ہلاک کیا۔ ان کے خلاف کارروائی کی گئی اور اب قصور وار سرینگر کے سینٹرل جیل میں قید ہے۔ ایک دوسرے معاملے میں بھی قصور واروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ یہ سنگین معاملہ ہوتا ہے اور ان پر ذرا بھی ہماری جانب سے لاپروائی نہیں برتی جاتی ہے۔'

مہمان پرندوں کی آمد میں کمی کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'شکاریوں پر ہماری کڑی نظر ہے۔ تاہم 2014 میں آئے تباہ کن سیلاب کے بعد وادی کی آبی پناہ گاہوں میں کافی مربع اکٹھا ہو گیا جس کی وجہ سے ان آبی پناہ گاہوں میں پانی کی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ جب پانی کم ہے تو پرندے کہاں بیٹھیں گے۔ ہمارے محکمے کے پاس فٹنس اور سٹاف دونوں کی کمی ہے۔ اس کے باوجود ہم اپنے طریقے سے کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ وہ ان پناہ گاہوں کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔'

وادی آنے والے مہمان پرندوں میں ٹفٹڈ ڈک، گڑھوال، برہمنی ڈک، گری لیگ گوز، ملاڈ، ناردرن پنٹیل، یوریشین ویژن کے علاوہ کامن ٹیل شامل ہیں۔ یہ پرندے وادی کی آبی پناہ گاہیں جن میں جھیل ڈل، جھیل ولر، ہوکر سر، ہائے گل، شعلہ بو گ اور میرگوند جیسے علاقے میں تقریبا پانچ مہینے تک قیام کر کے واپس لوٹ جاتے ہیں۔

امسال اگرچہ ان پرندوں کی تعداد میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ تاہم محکمے کا ماننا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے ان پرندوں اور وادی کی آبی پناہ گاہوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ناکافی اقدامات کی وجہ سے وہ ان مہمان پرندوں کی اچھی طریقے سے مہمان نوازی نہیں کر پا رہے ہیں۔

رینج آفیسر سہیل قاضی کا کہنا تھا کہ 'یہ پرندے ہمارے آبشاروں اور آبی پناہ گاہوں کی رونق میں چار چاند لگا دیتے ہیں لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ان مہمانوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ شکاریوں سے ہم آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ وائلڈ لائف پروٹیکشن کے قوانین بھی کافی سخت ہے۔ ہماری پریشانی کی وجہ ہے یہاں کی سکڑتی آبی پناہ گاہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'سنہ 2014 میں آئے تباہ کن سیلاب کے بعد محکمۂ اریگیشن اینڈ فلڈ کنٹرول نے یہاں کے دریاؤں کی ضرورت سے زیادہ ڈریسنگ کردی جس کی وجہ سے سارا ملبہ ان آبی پناہ گاہوں میں جمع ہوگیا اور جو پانی کی آمد کی شاہ رگ تھیں وہ بھی بند ہوگئی اور ہماری آبی پناہ گاہیں سوکھ گئی ہیں۔ ہمارے محکمے کے پاس زیادہ فنڈز نہیں ہوتے، تاہم پھر بھی ہم کافی شکر کر رہے ہیں۔"

انتظامیہ سے گزارش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ایک ماسٹر پلان کے تحت ہمارے محکمے نے تجویز پیش کی تھی کی ہوکر سر سے گزرتے ہوئے دریا میں دو واٹر لیول گیٹ نصب کئے جائیں۔ ان گیٹوں کی مدد سے ہوکرسر میں پانی جمع کیا جا سکتا ہے۔ آج کئی برس گزرنے کے بعد بھی اس پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔ نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ ہمارے مہمانوں کی آمد میں کمی ہو رہی ہے۔ جہاں کے حالات سدھر سکتے ہیں حالانکہ اس میں کچھ وقت لگے گا مگر نا ممکن نہیں ہے۔'

شکاریوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے پرندوں کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'پہلے تو شکاریوں کے خلاف معاملہ درج کیا جاتا ہے اور انہیں پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے۔ پرندوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم ہوتا ہے جس سے یہ سامنے آتا ہے کہ یہ شکاریوں کی جانب سے کی گئی کارروائی کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ پھر اس ہلاک شدہ پرندے کو دفن کیا جاتا ہے۔ تمام کارروائی کی بائیوگرافی کر کے محفوظ رکھی جاتی ہے۔'

انہوں نے عوام سے بھی گزارش کی کہ 'ان پرندوں کی حفاظت صرف محکمے کا کام نہیں بلکہ ہم سب کا ہے۔ اس لیے ہم سب کو پیش پیش رہنا چاہیے اور اگر کہیں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو ہمارے کنٹرول روم سے رابطہ کرنا چاہئے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.