مالیگاؤں (مہاراشٹر): مہاراشٹر جمعیتہ علماء کا انتخابی اجلاس ہنگامہ آرائی کے نذر ہوگیا۔ ہنگامی صورتحال کے درمیان مولانا حلیم اللہ قاسمی غیر دستوری صدر منتخب کردیئے گئے ہیں اور جمعیتہ علماء مالیگاؤں کے صدر و رکن اسمبلی مفتی محمد اسماعیل قاسمی کے نام پر اعتراض کیا گیا۔
مہاراشٹر کی دارالحکومت ممبئی کے حج ہاؤز کے وسیع و عریض ہال میں مہاراشٹر جمعیتہ علماء ہند کا انتخابی اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔ جو الزامات، تنازعات اور ہنگامی آرائی کے نذر ہوگیا۔ ذرائع سے ملی تفصیلات کے مطابق ریاست کے عہدیداران جمعیتہ علماء (ارشد مدنی) کا انتخاب کیا جانا تھا، جبکہ صدارت کیلئے تین ناموں کا اعلان کیا جانا تھا۔
الزام ہے کہ دہلی سے تعلق رکھنے والے جمعیتہ علماء ہند کے جنرل سیکرٹری مفتی معصوم ثاقب اور مولانا حلیم اللہ کے ساتھیوں نے مولانا کو صدر منتخب کرنے پر زور دیا اور جمعیتہ علماء مالیگاؤں کے صدر مفتی محمد اسماعیل قاسمی کی امیدواری کو سیاسی آدمی کہہ کر مخالفت کی گئی۔ جس کے بعد اراکین منتظمہ میں ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی اور بات کھینچا تانی و مار پیٹ کی نوبت تک پہنچ گئی۔
اس دوران جمعیتہ علماء مالیگاؤں کے صدر و رکن اسمبلی مفتی محمد اسماعیل قاسمی نے مولانا حلیم اللہ قاسمی کو غیر دستوری صدر منتخب قرار دیتے ہوئے الزام لگایا اور کہا کہ ان پر خیانت کے الزامات عائد ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران مولانا حلیم اللہ قاسمی ایک بڑی رقم لے کر گئے تھے۔ جو اب تک مکمل واپس نہیں کی گئی ہے۔
مفتی محمد اسماعیل قاسمی نے کہا کہ مولانا حلیم اللہ ایک مرتبہ دفتر سے تقریبا 2 کروڑ روپے کی رقم لے کر گئے تھے اور جب ان سے اس رقم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا تھا کہ اس رقم سے کچھ کام کررہا ہوں کام ہونے کے بعد بتاؤں گا۔
مفتی محمد اسماعیل قاسمی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ میں بھی مجلس عاملہ کا رکن ہوں لیکن مجھے بھی اس بات کا کوئی علم نہیں ہے کہ وہ رقم کہا گئی۔ جبکہ جمعیت علماء ہند کے دستور کے مطابق ایسے کسی شخص پر جس پر خیانت کے الزامات عائد ہوں یا وہ کسی معاملے میں مشکوک ہو، جب تک وہ معاملات حل نہیں ہوجاتے، اس شخص کو کوئی بھی عہدے پر نہیں رہ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
باوجود اس کے مولانا حلیم اللہ قاسمی کو غیر دستوری طور پر ریاستی صدر منتخب کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے جمعیت علماء پر عوام کا اعتماد کم ہوجائے گا اور جمعیت کو تعاون کرنے والوں میں بدگمانی پیدا ہوجائے گی۔ فی الحال اس معاملے میں قومی صدر کے موقف کا انتظار کیا جارہا ہے۔
نوٹ: دوسرے فریق کا موقف اس سلسلے میں ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔