علیگڑھ: علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، شعبۂ ترسیل عامہ کے سینئر استاد پروفیسر شافع قدوائی، ڈائریکٹر سر سید اکیڈمی نے خطبہ پیش کرتے ہوئے دور حاضر میں سر سید کی معنویت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ سر سید کی تعلیمات و افکار آج کے دور میں بھی اتنی ہی اہمیت کے حامل ہیں جتنے سر سید کے دور میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ سر سید کی فکر یہ تھی کہ کسی بھی بات کا جواب صرف احتجاج سے ہی نہیں دیا جانا چاہیے بلکہ دلیل و شواہد سے دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ولیم میور نے جب اپنی کتاب میں پیغمبرؐ اسلام کی توہین کی تو سر سید نے اس کا جواب دلیلوں کے ساتھ خطبات احمدیہ لکھ کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں:
126ویں برسی پر ماہر سر سید سے خصوصی گفتگو - Sir Syed 126th Death Anniversary
پروفیسر قدوائی نے کہا کہ سر سید کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خواتین کی تعلیم کے خلاف تھے جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ اس کے پیچھے جو وجہ نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت ہندوستانی معاشرہ اس کے لیے تیار نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب سر سید دوسرے ممالک جاتے اور وہاں کی خواتین کو تعلیم یافتہ دیکھتے تو خوشی کا اظہار کرتے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں سر سید کے نظریات کو اگر ہم اپنا لیں تو کافی حد تک کامیاب ہو جائیں گے، اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔
پروفیسر آذر می دخت صفوی نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ سر سید کی سائنٹفک تھنکنگ یعنی غیر جذباتی اور مدلل طریقۂ فکر اور رد عمل کا رویہ ہمارے لیے اس وقت بھی قابل تقلید تھا اور آج بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم دوسروں کے منفی رویوں کی دانشمندی، وقار اور معروضی طریقہ سے تردید کریں اور مثبت انداز میں اس کا جواب دیں۔ لکچر کا مقصد عوام، خصوصاً طلبا کے درمیان عہد حاضر میں سر سید کی معنویت کو اجاگر کرنا اور اس کی تشریح و تفہیم ہے۔