لکھنؤ: گزشتہ 22 مارچ کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو دیگر سرکاری اسکول میں شفٹ کیا جائے۔ ساتھ میں 6 سے 14 برس کے بچوں کو کوالٹی ایجوکیشن دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے بعد سے ریاست کے 10 ہزار سرکاری ٹیچرز اور ساڑھے 12 لاکھ طلبہ اور طالبات کا مستقبل شدید خطرے میں ہے۔ اس کے لیے مدارس تنظیمیں، سیاسی اور قانونی چارہ جوئی کے لیے سرگرم ہے۔ ایک طرف جہاں سپریم کورٹ میں اتر پردیش ٹیچر ایسوسی ایشن، مدارس عربیہ اور آل انڈیا ٹیچرس ایسوسی ایشن مدارس عربیہ سمیت دیگر تنظیمیں ایس پی ایل داخل کر چکی ہیں اور تمام لوگوں کی نگاہیں آئندہ 5 اپریل کو عدالت میں ہونے والی بحث اور اس کے نتائج پر مرکوز ہیں تو دوسری جانب لکھنؤ میں بھی مدارس سے وابستہ تنظیمیں سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کرتے ہوئے دوسرا ایکٹ لانے کی سفارش کررہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کو غیرآئینی قرار دیا - up madarsa board
اس کڑی میں مدارس کے ذمہ داران نے اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ بردیش پاٹک سے ان کے رہائش گاہ پر ملاقات کر موجودہ حالات سے واقف کرایا اور کہا کہ مدارس کے لوگوں میں شدید بے چینی ہے اور لاکھوں طلبہ کے مستقبل کا سوال ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد مدرسہ بورڈ کی حیثیت ختم ہو چکی ہے۔ لہٰذا حکومتی سطح پر مدرسہ ایکٹ لا کر کے مدارس کی بازیابی کے لیے کوشش کی جائے۔ اس سلسلہ میں نائب وزیر اعلیٰ کو میمورنڈم بھی سپرد کیا گیا۔ اس میں مدارس کے حالات سے واقف کرایا گیا ہے۔
نائب وزیر اعلیٰ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ جب تک عدالت عظمیٰ میں معاملہ زیر غور ہے۔ اس وقت تک حکومت کوئی پیش رفت نہیں کر سکتی ہے۔ تاہم اپنی سطح اور حکومتی سطح پر غور و خوض کریں گے اور ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کریں گے۔ وفد میں دارالعلوم وارثیہ کے مینیجر شمس الحسن، مولانا شمس تبریز، مولانا عفان عتیق ایڈووکیٹ فیضان و دیگر افراد شامل رہے۔
دوسری طرف سپریم کورٹ میں مدارس تنظیموں نے ایس پی ایل داخل کردی ہے۔ جس کی سماعت 5 اپریل بروز جمعہ ہوگی۔ عدالت بحث کے لیے ماہر قانون ایڈووکیٹ سلمان خورشید سے بھی مدارس تنظیم کے ذمہ داروں نے ملاقات کی اور سپریم کورٹ میں بحث کے لیے بھی سلمان خورشید، ایڈووکیٹ منوسنگھوی سمیت کئی وکلا کی مدد لی جائے گی۔ جو سپریم کورٹ میں بحث کریں گے۔ اس کے لیے مدارس میں جمعۃ الوداع کے موقع پر خصوصی وظائف کا بھی اہتمام کرنے کی اپیل کی گئی ہے اور مدارس کے حق میں فیصلہ آنے کے لیے بھی دعا کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔