علی گڑھ: علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کی جانب سے دو روزہ بین الاقوامی سیمینار ”اسرائیل فلسطین تنازعہ: موجودہ صورتحال اور مستقبل کے امکانات“ موضوع پر منعقدہ کیا گیا۔ جس میں اسرائیل فلسطین تنازعے پر گفتگو کی گئی اور اس جنگ سے انسانوں پر اس کے اثرات اور انسانی حقوق، امن بحالی کے عمل اور عرب لیگ کا کردار، علاقائی حرکیات اور امن کے امکانات وغیرہ جیسے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔
صدر شعبہ اور سیمینار کے ڈائریکٹر پروفیسر عبدالحمید فاضلی نے بتایا کہ سیمینار میں شرکت کے لئے متعدد اسکالرز اور دانشوروں کو مدعو کیا گیا جنہوں نے اس تنازعہ کے تاریخی پس منظر، انسانوں پر اس کے اثرات اور انسانی حقوق، سفارت کاری اور امن بحالی کے عمل، خطہ کی سیاست، تنظیم ِاسلامی تعاون (او آئی سی) اور عرب لیگ کا کردار، علاقائی حرکیات اور امن کے امکانات جیسے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
سیمینار میں فلسطین پر اسرائیل کے جارہانہ حملوں، ہزار ہا بے قصور افراد کی ہلاکتوں اور ان پر مظالم کے روز بہ روز بڑھتے سلسلوں، اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی اور امریکہ کے ظالمانہ سلوک کے سلسلہ میں دانشورں نے اپنا اظہار خیال کیا۔
سیمینار کے کنویز ڈاکٹر بلال احمد نے سیمینار کے اغراض و مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عالم انسانیت اسرائیل کے اس جارحانہ رویہ پر سخت احتجاج کر رہا ہے لیکن وہ اپنی بربریت سے بالکل پیچھے نہیں ہٹ رہا ہے جو انتہائی تشویش ناک ہے، اسی تعلق سے اسرائیل و فلسطین تنازعہ پر دو روزہ بین الاقوامی آن لائن و آف لائن سیمینار بعنوان " اسرائیل فلسطین تنازعہ: موجودہ بحران اور آئندہ امکانات منعقد کیا گیا۔ جس میں بھارت کے مختلف جامعات کے علاوہ ماریشس ، تھائی لینڈ، افغانستان وغیرہ کے دانشوران نے شرکت کی۔
ڈائریکٹر سیمینار پروفیسر عبد الحمید فاضلی نے اپنے استقبالیہ خطبہ میں بتایا کہ اسرائیل فلسطین تنازعد دنیا کے سب سے سنگین اور افتراقی مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے جو کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ اس مسئلہ کی تاریخی, سیاسی اور مذہبی پیچیدگیوں کی بنیاد پر، اس تنازعہ کے حل کی تمام تر امن اور باہمی مفاہمت پر مبنی اقدامات نا کام ہو چکے ہیں۔ اس ضمن میں آج کا یہ سیمینار اسرائیل فلسطین تنازعہ پر مکالمہ، تجزیہ اور تنقیدی تبادلۂ خیال کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنے کی کوشش پر مشتمل ہے۔
ماہرین، دانشوران، پالیسی ساز حضرات اور دیگر متعلقین کو ایک پلیٹ فارم پر باہمی مذاکرہ کے لئے جمع کر کے متعلقہ خطہ میں خلیج کو پاٹنا اور باہمی مصالحت اور امن کو فروغ دیتا ہے۔
پروفیسر ابوسفیان اصلاحی نے فلسطین کی عظمت واہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اسے مسلمانوں کے تقدس ترین شہروں جیسے مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے ہم وزن قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس علاقے کی اہمیت اس لئے زیادہ ہو جاتی ہے کہ دنیا میں جتنے انبیاء تشریف لائے ہیں اُن میں کئی کی بڑی تعداد فلسطین میں آنے والے انبیاء کی ہے۔
پروفیسر جاوید اقبال نے اپنے کلیدی خطبہ میں تاریخ کے حوالے سے بتایا کہ بیت المقدس بہت مبارک مقام ہے اُسے ایک زمانے تک مسلمانوں کا قبلہ ہونے کا شرف حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ رسول اکرم ﷺ کے امام الانبیاء ہونے کا مقام بھی پایا جاتا ہے ۔ 1948 ء میں اس جگہ پر یہودیوں کی آبادکاری کے بعد اسرائیل کا قیام عمل میں آیا جس نے رفتہ رفتہ مسلم آبادیوں پر زبردستی اپنا تسلط قائم کر لیا۔ اس کے غاصبانہ قبضہ کے نتیجے میں حالات بد سے بدتر ہونا شروع ہوئے اور اب حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ مظلوم فلسطینیوں کا قتل عام ہو رہا ہے اور اقوام متحدہ اس پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے جو بہت زیادہ افسوس کا مقام ہے۔
پروفیسر محمد اظہر مہمان خصوصی نے اپنے صدارتی خطاب میں اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اُس نے مسلمانوں کی نسل کشی کو اپنی شناخت بنالیا ہے، نہتے فلسطین معصوموں کو وہ اپنے سیاسی آقا امریکہ کی سر پرستی میں جس طرح سبوتاژ کر رہا ہے وہ لائق مذمت ہے۔
اظہار تشکر سیمینار کے معاون کنوینر ڈاکٹر اعجاز احمد نے پیش کیا جبکہ نظامت کے فرائض شعبہ اور یونیورسٹی کے معروف استاد پروفیسر عبد المجید خاں نے بحسن و خوبی انجام دئے۔ اس سیمینار میں ملک اور بیرون ملک کے اساتذہ محققین, دانشوران, ریسرچ اسکالرز طلباء سماجی اداروں اور بین الاقوامی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے حضرات و خواتین کی ایک بڑی بڑی تعداد آن لائن اور آف لائن موجود رہی۔