بنگلورو: کرناٹک اردو اکادمی کی تشکیل نو پر اردو داں حلقوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اردو زبان کے مفادات کے خلاف اور کانگریس کی ووٹ بینک سیاست کے تابع اٹھایا گیا ایک قدم قرار دیا ہے۔ اکادمی کی تشکیل نو کا حکمنامہ حال ہی میں اقلیتوں کی وزارت کے ذریعہ جاری کیا گیا ہے جس میں چیئرمین اور ممبران کا تقرر کیا گیا ہے۔
اکادمی کیلئے مولانا محمد علی قاضی کو چیئرمین مقرر کیا گیا ہے جبکہ اکادمی کے ممبران میں محمد اعظم شاہد بنگلور، جعفر محی الدین بنگلور، شائستہ یوسف بنگلورو، محمد شاہد خزی آف بنگلورو اور اختر محمد شاہد شامل ہیں۔ بنگلورو کی سیدہ خانم، تمکورو کے عبدالعظیم تنویر، بنگلورو کے عابد سلیم، بیدر کے محمد امین الدین نواز، داونگیرے کے محمد داؤد محسن ہیں
تشکیل نو کے اس فیصلے پر اردو داں طبقے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ انڈین پولیس سروس کے سابق افسر خلیل مامون نے، جو ماضی میں چیئرمین کرناٹک اردو اکادمی کے عہدے پر رہے ہیں، اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا کو خط لکھا ہے اور حکومت کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کرناٹک اردو اکاڈمی کے چیئرمین کی تقرری کا مطالبہ
اس حوالے سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے
خلیل مامون نے اقلیتی امور کے وزیر ضمیر احمد خان پر اکادمی کے چیئرمین کے طور پر ایک مولوی یا مولانا کی تقرری پر اثر انداز ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مولوی کے پاس اردو کی مہارت کا شدید فقدان ہے اور وہ نہ تو ادیب ہیں اور نہ شاعر اور نہ ہی اردو زبان سے متعلق مسائل سے واقف ہیں۔
انہوں نے اکادمی میں کچھ ایسے اراکین کی تقرری پر بھی سوال اٹھایا جن کا اردو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ چیئرپرسن بننے کے لائق تھے انہیں ممبر بنایا گیا ہے۔
مامون نے وزیر اعلیٰ پر الزام لگایا کہ وہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اکیڈمی کے چیئرمین کے طور پر ایک عالم دین کو خوش کرنے کی سیاست کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ انتخابات سے قبل اردو اکادمی کا تشکیل کانگریس کی قیادت والی حکومت کے ارادے کو صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ خوشامد کی سیاست ہے۔
وزیر اعلیٰ کے نام اپنے خط میں مامون نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت کا ایسا اقدام ملک کی سیکولر ساکھ کو ایک جھٹکا ہے جسے ایک طویل عرصے سے محفوظ رکھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی میں اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی قابل قدر اسکالر کو بھی جگہ دی جاسکتی تھی کیونکہ اردو کسی مذہب یا فرقے کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ ایک سیکیولر زبان ہے۔ افسوس کہ ایسا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مرزا غالب کے وقت سے ہرگوپال تفتہ، دیا شنکر نسیم، برج نارائن چکبست، آنند نارائن ملا، منشی پریم چند اور رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری متعدد ممتاز غیر مسلم اردو شاعر اور مصنفین پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔
مامون نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ نئی اکادمی میں صرف بنگلور شہر کو نمائندگی دی گئی ہے حالانکہ کرناٹک کے دیگر متعدد علاقوں میں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے لیکن وہاں کے ادیبوں اور اردو اسکالروں کو جگہ نہیں دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلبرگہ، یادگیر، بیجاپور، رائچور، بیلاری، کوپل جیسے اضلاع کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی اور اعتراض کیا کہ گلبرگہ سے ایک ممبر کو چوتھی بار ممبر بنایا گیا ہے جبکہ اہل ممبران کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
مامون نے کہا، انہوں نے محسوس کیا کہ حکومتی حکم نامے سے اردو زبان اور اردو کے سیکولر ورثے کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوئی ہے جس نے کانگریس حکومت کی سیکولر روایات کے بارے میں غلط تاثرات بھیجے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے صرف اعتراضات اور سوالات اٹھانے کا اپنا فرض ادا کیا ہے اور وزیراعلیٰ سے کسی جواب کی توقع نہیں رکھتے۔
مامون نے وزیر اعلیٰ کو متنبہ کیا کہ اردو اکادمی کے آئین کے حوالے سے حکومت کا اقدام منفی نتائج کا حامل ہوسکتا ہے اور ان کی پارٹی کے سیاسی مفاد کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ کو مشورہ دیا کہ ان کے پاس علمی شعبے سے تعلق رکھنے والے ہوشیار اور متوازن مشیر ہوں۔
اس پورے معاملے پر و الزامات کے متعلق ای ٹی وی بھارت نے وزیر برائے اقلیتی امور ضمیر احمد خان کو ایک برقی مراسلے میں وضاحت کرنے کی گزارش کی لیکن ابھی تک انکا جواب نہیں آیا۔ جب وزیر موصوف اس بارے میں کوئی بیان دیں گے تو اس اسٹوری کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔