سہارنپور: مغربی اترپردیش میں زیادہ تر مسلم اکثریتی لوک سبھا سیٹوں پر ایک بار پھر جیت پرچم لہرانے کو جہاں بی جے پی راشٹریہ لوک دل کو اپنا اتحادی بنا کرمطمئن نظر آرہی ہے تو وہیں انڈیا اتحاد کی مسلم ووٹوں کی تقسیم سے بچانے کی کیا حکمت عملی ہوگی یہ دلچسپ ہوگا۔
سابقہ روایات پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو بات مترشح ہوتی ہے ہے جہاں جہاں مسلم ووٹ 30 سے 50فیصدی تک ہیں وہاں ہندو ووٹوں میں زبردست پولرائزیشن ہونے کی وجہ سے بی جےپی میدان مارتی رہی ہے۔ گذشتہ انتخابات میں پر نظر ڈالیں تو مغربی یوپی میں مسلم اکثریتی سیٹوں پر کبھی مسلم ۔دلت تو کبھی مسلم۔ جاٹ صف بندی کافی فائدے مندرہی ہے۔
سال 2013 میں مظفر نگر کے جاٹ۔ مسلم صف بندی کے منہدم ہونے کا فائدہ سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے پوری طرح سے اٹھایا تھا لیکن سال 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں ایس پی۔ بی ایس پی اتحاد نے مغربی اترپردیش کی مسلم اکثریتی سیٹوں پر دلت۔ مسلم صف بندی کر بی جے پی کی ہندوتوا لہر پر کو مانند دیتے ہوئے بی جے پی کو حیرت انگیز طور پر لوک سبھا کی 10سیٹوں پر شکست دینے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
مغربی اترپردیش کی بجنور، نگینہ(محفوظ)، مرادآباد، رام پور اسٹیٹ اور سنبھل جہاں 41 سے50فیصدی مسلم ووٹر ہیں۔ یہ سیٹیں بھی بی جے پی سال 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں ایس پی۔ بی ایس پی اتحاد سے ہار گئی تھی۔ بعد میں ضمنی الیکشن میں بی جے پی رام پور سیٹ پر جیت درج کی تھی۔
مغربی اترپردیش کی سہارنپور، کیرانہ، مظفر نگر، امروہہ، میرٹھ، آنولہ ، بریلی سیٹوں پر 31 سے 40فیصدی مسلم ووٹر ہیں۔ ان میں سے بی جے پی سہارنپور اور امروہہ سیٹوں پر ہا گئی تھی جبکہ کیرانہ، مظفر نگر، میرٹھ، آنولہ اور بریلی پر جیت درج کیا تھا۔ مظفر نگر سیٹ پر چودھری اجیت سنگھ کی ہار نے پوری جاٹ پٹی میں سنسنی پھیلا دی تھی۔یعنی سال 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں دلت۔ مسلم اتحاد زیادہ کارگر رہا اور بی جے پی پر بھاری پڑا۔
دلچسپ ہے کہ سال 2014 کے انتخابات میں بی جے پی نے سہارنپور، بجنور، کیرانہ، مظفر نگر سیٹوں پر جیت درج کی تھی۔ تب جاٹ پوری طرح سے بی جے پی کے ساتھ تھے اور پورے اترپردیش میں مسلم ووٹ غیر اہم ہوکر رہ گیا تھا۔ تب 80سیٹوں میں سے ایک بھی مسلمان امیدوار لوک سبھا کا منھ نہیں دیکھ پایا تھا لیکن سال 2019 میں دلت۔ مسلم اتحاد میں بی جے پی کے کمل کو دس سیٹوں پر مرجھا دیا تھا۔
سال 2022 کے اسمبلی الیکشن میں جاٹ۔ مسلم اتحاد بننے سے مغربی اترپردیش کو زیادہ مسلم اکثیریت سیٹوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کے کڑوے نتائج سے سبق لیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے جینت چودھری کا ساتھ لیا ہے۔ بی جے پی اب کی 2014 کی طرح اپوزیشن کے صفائے کی حالت میں کھڑی ہے۔بی جے پی نے سال 2014 میں اترپردیش میں مسلم اکثریت والی 22سیٹوں پر جیت درج کی تھی جبکہ سال 2019 میں وہ 15سیٹیں جیتی تھی۔آٹھ سیٹیں اپوزیشن کے کھاتے میں چلی گئی تھیں۔
اپوزیشن اتحاد جس میں ایس پی اور کانگریس شامل ہیں۔ مسلمانوں کو بہتر انتخابی نتائج حاصل کرنے میں کیسے استعمال کرتے ہیں اس کی حکمت عملی ان کے سیاسی پالیسی ساز تیار کرنے میں مصروف ہے۔اس پر اپوزیشن کے سامنے چیلنجز ہے کہ آر ایل ڈی کے این ڈی اے اور مایا وتی کے الگ رہنے کے بعد ایس پی۔ کانگریس کا انڈیا اتحاد مسلم اکثریتی سیٹوں پر ووٹوں کی تقسیم نہ ہو اس کے لئے کیا حکمت عملی بنائے گا۔ کیونکہ ووٹوں کی تقسیم ہی بی جےپی کے لئے نفع بخش ہے۔
یواین آئی۔