ETV Bharat / opinion

روس یوکرین جنگ میں بھارت کا کردار - The Russia Ukraine war

روس اور یوکرین کی جنگ نے دنیا کو دو گروپس میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس مسٔلے پر سب کی نگاہیں بھارت پرٹکی ہیں کہ اس کا کیا رول ہوگا۔ کیونکہ امریکہ یوکرین کو سپورٹ کر رہا ہے جب کہ بھارت کے روس کے ساتھ تعلقات 70 سال پرانے ہیں۔ اس لیے بھارت کو ایسی حکمت عملی اپنانا ہوگی جس سے اس کے تعلقات روس بھی اچھے رہیں اور امریکہ سے بھی۔ مضمون نگار وویک مشرا (پی ایچ ڈی۔اسٹریٹجک اسٹڈیز پروگرام آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن) نے اس پر روشنی ڈالی ہے۔

Etv Bharat
Etv Bharat (Etv Bharat)
author img

By Vivek Mishra

Published : May 30, 2024, 6:29 PM IST

حیدرآباد: یورپ میں روس اور یوکرین کی جنگ ایک نازک موڑ پر ہے۔ روس، یوکرین کے سب سے نمایاں شہر، کھارکیو کی طرف بڑھ رہا ہے۔ میدان جنگ میں حکمتِ عملی کے ساتھ روس کی پیش رفت آہستہ آہستہ ہو رہی ہے، جہاں روس یوکرین کے مشرق میں اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو پھر سے مضبوط کرسکتا ہے۔

دوسری طرف، اپریل میں امریکی کانگریس کی طرف سے یوکرین کے لیے منظور شدہ 60 بلین ڈالر سے زیادہ کی امریکی امداد سے اس (یوکرین) کو مغربی ہتھیاروں کی سپلائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

تاہم، کوئی حتمی نتیجہ نظر نہ آنے کے سبب، عالمی اسٹیک ہولڈرز اپنے مفادات کو یورپ میں جنگ کے ابھرتے ہوئے پیرامیٹرز کی بنا پر بہت محتاط طریقے سے اپنے قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔

جیسے جیسے روس-یوکرین جنگ آگے بڑھی ہے، دیگر ممالک کی بھارت سے توقعات بھی بدل گئی ہیں، جہاں بھارت کو ایک ممکنہ ثالث کے طور پر تو دیکھا جا رہا ہے ساتھ ساتھ اسے یوکرین اور روس دونوں میں ایک اہم رول ماڈل کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ خاص طور پر سوئٹزرلینڈ میں 15-16 جون کو ہونے والی یوکرین پیس سمٹ میں بھارت کی شرکت اور کردار کے حوالے سے۔ یہی وجہ ہے کہ سب کی نظریں بھارت پر ٹکی ہوئی ہیں۔

روس-یوکرین جنگ کے پس منظر میں، بھارت کا نظریہ ایک دم صاف ہے، لیکن بھارت کے لیے چھپے ہوئے چیلنجز کیا ہیں، اور جغرافیائی طور پر دور یورپی جنگ بھارت کے اسٹریٹجک حساب کتاب میں کہاں فٹ ہے، یہ دیکھنا بھی ضروری ہوگا۔

بھارت اور روس کے تعلقات 70 سال سے زیادہ پرانے ہیں۔ دفاعی درآمدات سے لے کر اسٹریٹجک پارٹنرشپ تک، ان دونوں ممالک کے تعلقات بہت گہرے ہیں۔ دفاعی ساز و سامان اور دیکھ بھال کے لیے بھارت کا روس پر انحصار اہم ہے، لیکن کیا یہ عوامل عالمی اثرات کے حامل مسائل پر اس کی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے کافی ہیں؟

اس تعلق کی تفصیلات کو محض دفاع یا تاریخ تک محدود رکھنا ہوگا۔

پہلا، 1971 کے بعد سے دو طرفہ تعلقات میں نمایاں تبدیلی اور ترقی ہوئی ہے۔ دوسرا، بھارت کی اسٹریٹجک اور اقتصادی صورت حال اب بدل چکی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کے دو طرفہ اور کثیر جہتی اثرات میں لگاتار تبدیلی آ رہی ہے۔

  • بھارت کی خودمختاری

حکمت عملی اور خود مختاری کی بات کی جائے تو روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہونے سے پہلے، بھارت کے یوکرین اور روس دونوں کے ساتھ اچھے تجارتی تعلقات تھے۔ مگر جاری جنگ نے دونوں ممالک کی سپلائی میں خلل ڈالا ہے جس سے بھارت کی توانائی اور فوڈ سیکیرٹی متاثر ہوئی ہے۔ بیشتر ممالک کی طرح بھارت کو بھی موافقت اور توازن برقرار رکھنا پڑا ہے۔ اس وقت بھارت کا موقف کسی بھی قسم کی جنگ کے خلاف ہے۔

روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں بھارت کے مفادات کا معروضی جائزہ تین بنیادوں پر لگایا جاسکتا ہے: اس کی اسٹریٹجک خود مختاری، عالمی نظام کی عظیم طاقت کی تشکیل نو، اور اس کی توانائی اور دفاعی ضروریات۔

روس-یوکرین تنازع کے درمیان، بھارت نے فریق بننے سے گریز کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ موقف اپنایا ہے۔ یہ نقطہ نظر کئی اہم عوامل پر مبنی ہے۔

پہلا، بھارت کا تاریخی تناظر یورپی براعظمی تنازعات میں اس کی براہ راست شمولیت کی عدم موجودگی پر زور دیتا ہے۔

جس طرح بھارت ایشیائی تنازعات میں غیر ملکی مداخلت کی تعریف نہیں کرے گا اسی طرح وہ یورپی معاملات میں مداخلت سے باز رہے گا۔

روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کا اصل تناظر یورپی براعظمی تاریخ ہے۔ روس یوکرین جنگ میں اسٹریٹجک خود مختاری برقرار رکھنے کا بھارت کا فیصلہ کئی وجوہات کی بنا پر دانشمندانہ ہے۔ سب سے پہلے، فریقین کی طرف سے خطرہ مول لینا بھارت کو دور رس نتائج کے ساتھ ایک تنازعہ میں الجھا دیتا ہے۔ اس میں شامل اتحادوں اور مفادات کے پیچیدہ جال کو دیکھتے ہوئے، غیر جانبداری بھارت کے قومی مفادات اور سفارتی جھکاؤ کا تحفظ کرتی ہے۔

  • عالمی نظام کی تنظیم نو

روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کی نوعیت، جو کہ حقیقی معنوں میں ایک عظیم طاقت کی کشمکش ہے، دنیا کو الگ الگ گروپ میں تقسیم ہونے کے خدشات کو جنم دیتی ہے۔ جہاں ایک طرف روس ہے اور دوسری طرف یوکرین ہے، جسے مغرب کی حمایت حاصل ہے، اس طرح سے الگ الگ گروپ میں تقسیم ہونا سنگین نتائج کی طرف لے جاتا ہے اور جس کا زوال یقینی ہے۔

بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی دھاروں کو روکنے میں بھارت کے مفادات مضمر ہیں۔ ابھرتا ہوا ورلڈ آرڈر ایک پاور بلاک کے ساتھ صف بندی کے بجائے کثیر الائنمنٹ کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ متعصبانہ موقف سے گریز کرتے ہوئے، بھارت کو اپنے اقتصادی اور حکمت عملی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں آگے بڑھنا چاہیے۔

جغرافیائی طور پر، روس-یوکرین جنگ ایک عظیم طاقت کا تنازعہ ہے جو ساختی طور پر دنیا کو کئی ایک گروہوں میں تقسیم کر رہا ہے جو بہت خطرناک ہے۔ روس اور یوکرین کے تنازعے کو دیکھتے ہوئے حالات سازگار نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ مغرب کے مخالف فریقوں کی طرف سے سمجھوتے کے بہت کم اشارے مل رہے ہیں اور کوئی کسی کی بھی برائی لینے کو تیار نہیں ہے، اس کا حل کچھ نہیں ہے بس عالمی نظام کے ٹوٹنے میں تیزی آئے گی۔

اس ٹوٹ پھوٹ کے آثار پہلے ہی نظر آ رہے ہیں، ایک طرف روس، چین، ایران، شام، شمالی کوریا اور کچھ دوسری ریاستیں ہیں اور دوسری طرف مغرب ہے۔

بلاشبہ، ان ریاستوں کے لیے کافی گنجائش موجود ہے جو تنازعات میں غیر جانبدار رہیں۔اہم داؤ کے بغیر پوزیشن لینا ہمیشہ بین الاقوامی تعلقات میں مفادات کے مقابلے اقدار کے توازن کو پیچیدہ بناتا ہے۔

عالمی نظام دراصل کثیر قطبی سے کثیر الائنمنٹ کی طرف عبوری مرحلے میں ہے اور روس یوکرین جنگ کے ساتھ ساتھ حماس اسرائیل تنازع اس فطری منتقلی میں خلل ڈالنا چاہتا ہے۔ ان رکاوٹوں نے کثیر صف بندی کو پیچھے ڈھکیل دیا ہے۔ اور ساتھ ہی اختلاف رائے کو مضبوط کیا ہے، جہاں طاقت کا ارتکاز طاقت کے پھیلاؤ سے غیر متناسب طور پر زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ تاہم، نتیجے میں کثیر قطبیت کثیرالجہتی مفادات کے ساتھ پھیل جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں، ممالک کو سیاسی طور پر ایک فریق کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے جبکہ دوسرے کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ روس کے ساتھ مضبوط تعلقات اور مغرب کے ساتھ نسبتاً مستحکم اقتصادی تعلقات کے ساتھ چین شاید اس دوہرے پن کی بہترین نمائندگی کرتا ہے۔

  • بھارت کی توانائی اور دفاعی ضروریات

روس بھارت کے سب سے بڑے دفاعی سپلائرز میں سے ایک ہے،اس وجہ سے، یہ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ فروری 2022 کے بعد سے، روس پر بھارت کا تیل کا انحصار اس میں اور اضافہ کرتا ہے، نہ صرف سپلائی چین کے مسائل کی وجہ سے بلکہ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے بھی۔

توانائی پر انحصار کرنے والا ملک ہونے کے باوجود، بھارت کی روس سے تیل کی درآمد عالمی توانائی کی منڈی پر اس کے انحصار کو ظاہر کرتی ہے۔ بھارت جیسے توانائی پر انحصار کرنے والے بڑے ملک کے لیے تیل کی قیمتوں میں استحکام ایک اہم عنصر ہے۔

روس-یوکرین جنگ کے حوالے سے کئی پیشین گوئیاں ہیں، جن کا بھارت کے انتخاب پر اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ بیرونی عوامل جیسے جنگ کے ممکنہ نتائج سے بھی بھارت کی پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ آخر کار، روس-یوکرین جنگ کے مقابلے میں بھارت کے اپنے مفادات کا دفاع کیا معنی رکھتا ہے؟ امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کے لیے، اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ بھارت کے باہمی تعاون کو یقینی بنایا جائے۔ دوسرا، بھارت اور روس کے تعلقات میں چینی عنصر کے بڑھنے کا امکان ہے، جب تک کہ بڑی تبدیلیاں مغرب کے ساتھ چین کے اپنے تعلقات میں خلل نہ ڈالیں۔

حیدرآباد: یورپ میں روس اور یوکرین کی جنگ ایک نازک موڑ پر ہے۔ روس، یوکرین کے سب سے نمایاں شہر، کھارکیو کی طرف بڑھ رہا ہے۔ میدان جنگ میں حکمتِ عملی کے ساتھ روس کی پیش رفت آہستہ آہستہ ہو رہی ہے، جہاں روس یوکرین کے مشرق میں اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو پھر سے مضبوط کرسکتا ہے۔

دوسری طرف، اپریل میں امریکی کانگریس کی طرف سے یوکرین کے لیے منظور شدہ 60 بلین ڈالر سے زیادہ کی امریکی امداد سے اس (یوکرین) کو مغربی ہتھیاروں کی سپلائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

تاہم، کوئی حتمی نتیجہ نظر نہ آنے کے سبب، عالمی اسٹیک ہولڈرز اپنے مفادات کو یورپ میں جنگ کے ابھرتے ہوئے پیرامیٹرز کی بنا پر بہت محتاط طریقے سے اپنے قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔

جیسے جیسے روس-یوکرین جنگ آگے بڑھی ہے، دیگر ممالک کی بھارت سے توقعات بھی بدل گئی ہیں، جہاں بھارت کو ایک ممکنہ ثالث کے طور پر تو دیکھا جا رہا ہے ساتھ ساتھ اسے یوکرین اور روس دونوں میں ایک اہم رول ماڈل کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ خاص طور پر سوئٹزرلینڈ میں 15-16 جون کو ہونے والی یوکرین پیس سمٹ میں بھارت کی شرکت اور کردار کے حوالے سے۔ یہی وجہ ہے کہ سب کی نظریں بھارت پر ٹکی ہوئی ہیں۔

روس-یوکرین جنگ کے پس منظر میں، بھارت کا نظریہ ایک دم صاف ہے، لیکن بھارت کے لیے چھپے ہوئے چیلنجز کیا ہیں، اور جغرافیائی طور پر دور یورپی جنگ بھارت کے اسٹریٹجک حساب کتاب میں کہاں فٹ ہے، یہ دیکھنا بھی ضروری ہوگا۔

بھارت اور روس کے تعلقات 70 سال سے زیادہ پرانے ہیں۔ دفاعی درآمدات سے لے کر اسٹریٹجک پارٹنرشپ تک، ان دونوں ممالک کے تعلقات بہت گہرے ہیں۔ دفاعی ساز و سامان اور دیکھ بھال کے لیے بھارت کا روس پر انحصار اہم ہے، لیکن کیا یہ عوامل عالمی اثرات کے حامل مسائل پر اس کی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے کافی ہیں؟

اس تعلق کی تفصیلات کو محض دفاع یا تاریخ تک محدود رکھنا ہوگا۔

پہلا، 1971 کے بعد سے دو طرفہ تعلقات میں نمایاں تبدیلی اور ترقی ہوئی ہے۔ دوسرا، بھارت کی اسٹریٹجک اور اقتصادی صورت حال اب بدل چکی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کے دو طرفہ اور کثیر جہتی اثرات میں لگاتار تبدیلی آ رہی ہے۔

  • بھارت کی خودمختاری

حکمت عملی اور خود مختاری کی بات کی جائے تو روس اور یوکرین کی جنگ شروع ہونے سے پہلے، بھارت کے یوکرین اور روس دونوں کے ساتھ اچھے تجارتی تعلقات تھے۔ مگر جاری جنگ نے دونوں ممالک کی سپلائی میں خلل ڈالا ہے جس سے بھارت کی توانائی اور فوڈ سیکیرٹی متاثر ہوئی ہے۔ بیشتر ممالک کی طرح بھارت کو بھی موافقت اور توازن برقرار رکھنا پڑا ہے۔ اس وقت بھارت کا موقف کسی بھی قسم کی جنگ کے خلاف ہے۔

روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں بھارت کے مفادات کا معروضی جائزہ تین بنیادوں پر لگایا جاسکتا ہے: اس کی اسٹریٹجک خود مختاری، عالمی نظام کی عظیم طاقت کی تشکیل نو، اور اس کی توانائی اور دفاعی ضروریات۔

روس-یوکرین تنازع کے درمیان، بھارت نے فریق بننے سے گریز کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ موقف اپنایا ہے۔ یہ نقطہ نظر کئی اہم عوامل پر مبنی ہے۔

پہلا، بھارت کا تاریخی تناظر یورپی براعظمی تنازعات میں اس کی براہ راست شمولیت کی عدم موجودگی پر زور دیتا ہے۔

جس طرح بھارت ایشیائی تنازعات میں غیر ملکی مداخلت کی تعریف نہیں کرے گا اسی طرح وہ یورپی معاملات میں مداخلت سے باز رہے گا۔

روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کا اصل تناظر یورپی براعظمی تاریخ ہے۔ روس یوکرین جنگ میں اسٹریٹجک خود مختاری برقرار رکھنے کا بھارت کا فیصلہ کئی وجوہات کی بنا پر دانشمندانہ ہے۔ سب سے پہلے، فریقین کی طرف سے خطرہ مول لینا بھارت کو دور رس نتائج کے ساتھ ایک تنازعہ میں الجھا دیتا ہے۔ اس میں شامل اتحادوں اور مفادات کے پیچیدہ جال کو دیکھتے ہوئے، غیر جانبداری بھارت کے قومی مفادات اور سفارتی جھکاؤ کا تحفظ کرتی ہے۔

  • عالمی نظام کی تنظیم نو

روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کی نوعیت، جو کہ حقیقی معنوں میں ایک عظیم طاقت کی کشمکش ہے، دنیا کو الگ الگ گروپ میں تقسیم ہونے کے خدشات کو جنم دیتی ہے۔ جہاں ایک طرف روس ہے اور دوسری طرف یوکرین ہے، جسے مغرب کی حمایت حاصل ہے، اس طرح سے الگ الگ گروپ میں تقسیم ہونا سنگین نتائج کی طرف لے جاتا ہے اور جس کا زوال یقینی ہے۔

بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی دھاروں کو روکنے میں بھارت کے مفادات مضمر ہیں۔ ابھرتا ہوا ورلڈ آرڈر ایک پاور بلاک کے ساتھ صف بندی کے بجائے کثیر الائنمنٹ کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ متعصبانہ موقف سے گریز کرتے ہوئے، بھارت کو اپنے اقتصادی اور حکمت عملی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے میں آگے بڑھنا چاہیے۔

جغرافیائی طور پر، روس-یوکرین جنگ ایک عظیم طاقت کا تنازعہ ہے جو ساختی طور پر دنیا کو کئی ایک گروہوں میں تقسیم کر رہا ہے جو بہت خطرناک ہے۔ روس اور یوکرین کے تنازعے کو دیکھتے ہوئے حالات سازگار نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ مغرب کے مخالف فریقوں کی طرف سے سمجھوتے کے بہت کم اشارے مل رہے ہیں اور کوئی کسی کی بھی برائی لینے کو تیار نہیں ہے، اس کا حل کچھ نہیں ہے بس عالمی نظام کے ٹوٹنے میں تیزی آئے گی۔

اس ٹوٹ پھوٹ کے آثار پہلے ہی نظر آ رہے ہیں، ایک طرف روس، چین، ایران، شام، شمالی کوریا اور کچھ دوسری ریاستیں ہیں اور دوسری طرف مغرب ہے۔

بلاشبہ، ان ریاستوں کے لیے کافی گنجائش موجود ہے جو تنازعات میں غیر جانبدار رہیں۔اہم داؤ کے بغیر پوزیشن لینا ہمیشہ بین الاقوامی تعلقات میں مفادات کے مقابلے اقدار کے توازن کو پیچیدہ بناتا ہے۔

عالمی نظام دراصل کثیر قطبی سے کثیر الائنمنٹ کی طرف عبوری مرحلے میں ہے اور روس یوکرین جنگ کے ساتھ ساتھ حماس اسرائیل تنازع اس فطری منتقلی میں خلل ڈالنا چاہتا ہے۔ ان رکاوٹوں نے کثیر صف بندی کو پیچھے ڈھکیل دیا ہے۔ اور ساتھ ہی اختلاف رائے کو مضبوط کیا ہے، جہاں طاقت کا ارتکاز طاقت کے پھیلاؤ سے غیر متناسب طور پر زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ تاہم، نتیجے میں کثیر قطبیت کثیرالجہتی مفادات کے ساتھ پھیل جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں، ممالک کو سیاسی طور پر ایک فریق کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے جبکہ دوسرے کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ روس کے ساتھ مضبوط تعلقات اور مغرب کے ساتھ نسبتاً مستحکم اقتصادی تعلقات کے ساتھ چین شاید اس دوہرے پن کی بہترین نمائندگی کرتا ہے۔

  • بھارت کی توانائی اور دفاعی ضروریات

روس بھارت کے سب سے بڑے دفاعی سپلائرز میں سے ایک ہے،اس وجہ سے، یہ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ فروری 2022 کے بعد سے، روس پر بھارت کا تیل کا انحصار اس میں اور اضافہ کرتا ہے، نہ صرف سپلائی چین کے مسائل کی وجہ سے بلکہ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے بھی۔

توانائی پر انحصار کرنے والا ملک ہونے کے باوجود، بھارت کی روس سے تیل کی درآمد عالمی توانائی کی منڈی پر اس کے انحصار کو ظاہر کرتی ہے۔ بھارت جیسے توانائی پر انحصار کرنے والے بڑے ملک کے لیے تیل کی قیمتوں میں استحکام ایک اہم عنصر ہے۔

روس-یوکرین جنگ کے حوالے سے کئی پیشین گوئیاں ہیں، جن کا بھارت کے انتخاب پر اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ بیرونی عوامل جیسے جنگ کے ممکنہ نتائج سے بھی بھارت کی پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ آخر کار، روس-یوکرین جنگ کے مقابلے میں بھارت کے اپنے مفادات کا دفاع کیا معنی رکھتا ہے؟ امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات کے لیے، اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ بھارت کے باہمی تعاون کو یقینی بنایا جائے۔ دوسرا، بھارت اور روس کے تعلقات میں چینی عنصر کے بڑھنے کا امکان ہے، جب تک کہ بڑی تبدیلیاں مغرب کے ساتھ چین کے اپنے تعلقات میں خلل نہ ڈالیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.