لیہہ، لداخ: لداخ کے لیے ریاستی درجے کی مانگ سمیت دیگر مطالبات پر دہلی تک پد یاترا نکالنے والے مشہور سماجی و ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک کے قافلہ میں شامل رضاکار لیہہ پہنچے۔ کے بی آر ہوائی اڈے پر مختلف مذہبی تنظیموں اور تمام شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن کے نائب صدر رگزن دورجے نے تمام یاتریوں کی بحفاظت واپسی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اس موقع پر رگزن دورجے نے پد یاترا کی تفصیلات پر روشنی بھی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ، ہمارا بنیادی مطالبہ پورا نہیں ہوا، اور اس کے لیے، ہمارے لیڈروں نے وزارت داخلہ کو ایک میمورنڈم پیش کیا ہے۔ رگزن دورجے نے امید جتائی کے اگلے سات آٹھ دنوں کے اندر وزارت داخلہ کی سطح پر بات چیت دوبارہ شروع ہو جائے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ، اگر وزارت داخلہ اور حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں آتا ہے تو ہمارے لیڈروں کے لیہہ واپس آنے کے بعد مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔ لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن کے نائب صدر نے واضح کیا کہ، یہاں ختم نہیں ہوا ہے، بلکہ یہ صرف ایک مرحلہ ہے، احتجاج جاری رہتا ہے یا دوبارہ شروع ہوتا ہے اس کا انحصار بڑی حد تک حکومت ہند بالخصوص وزارت داخلہ کے ردعمل پر ہوگا۔ رگزن دورجے نے جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ، لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ تمام پد یاتری اپنی مرضی سے دہلی میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ 150 رضاکاروں میں سے 20 لداخ اپیکس باڈی اور کے ڈی اے کے رہنماؤں کے ساتھ دہلی میں موجود ہیں۔ ان کے قیام کی مدت اور دہلی میں ان کی جاری بھوک ہڑتال کے بارے میں ہمیں وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔
واضح رہے لداخ کے ماحولیاتی کارکن اور ماہر تعلیم سونم وانگچک کو دہلی پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔ سونم وانگچک اور ان کے حامی 2 اکتوبر کو گاندھی جینتی کے موقع پر راج گھاٹ کی طرف مارچ کرنے والے تھے۔ تاہم دہلی میں دفعہ163 کے نفاذ کی وجہ سے پولیس نے انہیں سرحد پر روکنے کی کوشش کی۔ مظاہرین نے رکنے سے انکار کردیا تو انہیں سنگھو بارڈر سے حراست میں لے لیا گیا اور نظر بند کر دیا گیا۔
اس پورے معاملے پر اپیکس باڈی آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن گلیک پھنسوگ نے کہا کہ، "ہم تمام پد یاترا رضاکاروں کو لینے دہلی گئے تھے۔ لہٰذا ہماری ذمہ داری انہیں دہلی لے جانا اور دہلی سے لیہہ واپس لانا تھا۔ ہم بھی دہلی میں نظر بند تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ، پد یاترا ہماری توقع سے بہت کامیاب رہی اور ہمیں اچھا نتیجہ ملا۔ یہ صاف ظاہر تھا کہ لداخ کی آواز حکام تک کیسے پہنچی ہے۔ گلیک پھنسوگ کے مطابق دہلی میں 150 پد یاتریوں کے لیے 1000-2000 سے زیادہ فورس تعینات کی گئی تھی اور انھیں دبانے کی کوشش کی گئی۔ گلیک پھنسوگ کا ماننا ہے کہ، پد یاترا کا مرکزی حکومت پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔ اس سے ہمیں اپنے مطالبے کی اہمیت کا علم ہوا۔ اپیکس باڈی آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن نے لداخ کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، میرا لداخ کے لوگوں کو پیغام ہے کہ ہمیں کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے مطالبات بہت جلد پورے ہوں گے۔ ہمیں نظر بندی اور گرفتاری سے حوصلے پست نہیں کرنا چاہیے، میں اسے ایک نعمت کے طور پر دیکھتا ہوں کیونکہ اس سے میڈیا کی توجہ حاصل ہوئی۔
گلیک پھنسوگ نے مزید جانکاری دیتے ہوئے کہا، ہم نے ایک اعلیٰ سطحی وزیر داخلہ، مرکزی وزیر مملکت یا وزیر اعظم سے اس معاملے پر بات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ابتدائی طور پر انہوں نے ہمیں بتایا کہ 4 اکتوبر تک ہم جواب دیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور ہمیں دہلی میں اپنا انشن جاری رکھنا پڑا۔ انھوں نے کہا کہ، لداخ ایپکس باڈی اور کے ڈی اے کے تمام رہنما رضاکاروں کے ساتھ اپنا انشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ماہر ماحولیات اور ماہر تعلیم سونم وانگچک کی قیادت میں دہلی چلو پد یاترا یکم ستمبر کو چار نکاتی ایجنڈے کو لیکر شروع کی گئی تھی۔ چار نکاتی ایجنڈہ میں لداخ کو ریاست کا درجہ دینا، چھٹے شیڈول میں شامل کرنا، لوک سبھا کی ایک اضافی نشست اور لداخ میں بے روزگاری کو دور کرنا شامل ہے۔
دہلی سے لداخ واپس آنے والی ایک اور رضاکار، سکرما ٹوکدان نے پد یاترا سے متعلق اپنا تجربہ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ شیئر کیا۔ انھوں نے کہا کہ، "یہ سفر مختلف تجربات سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے سخت دھوپ، بارش، سردی اور بہت کچھ کا مقابلہ کیا، پھر بھی پہلے سے پد یاترا میں شامل رضاکاروں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ ان کے جذبے اور توانائی نے مجھے متاثر کیا۔ سکرما ٹوکدان نے کہا کہ، میں نے اپنے پیروں پر چھالوں اور سر درد کے باوجود کبھی تھکاوٹ محسوس نہیں کی یہ مجموعی طور پر ایک خوشگوار سفر تھا۔"
پد یاترا رضاکار نے اس یقین کا اظہار کہا کہ یہ جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی ہے کیونکہ حقیقی تبدیلی میں وقت لگے گا۔ انھوں نے لداخ کی تمام برادریوں سے متحد رہنے کی اپیل کی۔
یہ بھی پڑھیں: