سرینگر(جموں و کشمیر) جموں وکشمیر پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون آنے والے پارلیمانی انتخابات میں بارہمولہ-کپواڑہ نشست سے لڑیں گے۔ ان کا مقابلہ نیشنل کانفرنس کے امیدوار سے ہوگا، تاہم پیپلز کانفرنس نے جموں کشمیر کے دیگر چار پارلیمانی حلقوں سے انتخابات نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیپلز کانفرنس کے جنرل سیکریٹری عمران انصاری نے اس بات کا اعلان آج سماجی رابطہ سائٹ ایکس پر کرتے ہوئے کہا کہ" سجاد لون بارہمولہ-کپواڑہ نشست سے انتخابات لڑیں گے۔
عمران انصاری نے کہا کہ بحیثیت جنرل سیکریٹری انہوں نے گزشتہ دو ہفتوں سے پارٹی کے ذمہ داران سے مسلسل گفتگو کے دوران میں یہ رائے پائی کہ سجاد لون بارہمولہ-کپواڑہ نشست سے پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔
سجاد غنی لون نے سنہ 2009 میں علیحدگی پسندی کو الوداع کرکے کپواڑہ-بارہمولہ سے پہلی مرتبہ پارلیمانی انتخابات لڑے تھے، تاہم ان کو ان انتخابات میں شکست سے ہمکنار ہونا پڑا اور وہ ان انتخابات میں تیسری پوزیشن پر تھے۔
سنہ 2014 کے انتخابات نے انہوں نے سلام الدین بجاڈ کو اس حلقے سے میدان میں اتارا تھا، لیکن وہ بھی نیشنل کانفرنس کے امیدوار سے ہار گئے تھے۔
سنہ 2019 میں اوڑی سے تعلق رکھنے والے سابق پولیس افسر راجہ اعجاز علی کو پیپلز کانفرنس نے نیشنل کانفرنس کے امیدوار اکبر لون کے مد مقابل کھڑا کیا تھا،تاہم ان کو اکبر لون کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ ان انتخابات میں سابق ایم ایل اے اور اس وقت محروس سیاسی لیڈر انجینئر رشید نے بھی حصہ لیا تھا اور ان کو اس نششت سے ایک لاکھ سے زائد ووٹ ملے تھے۔
عمران انصاری نے کہا پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ جموں صوبے میں وہ انتخابات نہیں لڑیں گے۔ وادی کشمیر کے سرینگر اور اننت ناگ-راجوری حلقوں پر انتخابات لڑنے پر عمران انصاری نے کہا کہ پارٹی کے محدود وسائل کے سبب وہ ان دو حلقوں میں الیکشن لڑنے کے متعلق آنے والے دنوں میں پارٹی کی پوزیشن واضح کریں گے۔
انہوں نے بیان میں ہی اشارہ دیا کہ وہ ان دو سیٹوں پر اس پارٹی کو حمایت کریں گے جو جموں کشمیر کے "سب سے بڑے دشمن" کو ہرانے کے قابل ہوگی۔ ان کا "بڑے دشمن" کا اشارہ نیشنل کانفرنس کی طرف ہے، کیوں کہ پیپلز کانفرنس نیشنل کانفرنس کو ہی اپنا سیاسی حریف سمجھ رہی ہے۔
غور طلب ہے کہ پیپلز کانفرنس اپنی پارٹی کے امیدواروں کو ان دو حلقوں پر اپنی حمایت کا اعلان کرسکتی ہے، کیونکہ گزشتہ ماہ سجاد لون اور الطاف بخاری کے درمیان پارلیمانی انتخابات کے متعلق خفیہ ملاقات ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ پیپلز کانفرنس کپواڑہ ضلع کے چھ اور بارہمولہ کے پٹن اسمبلی حلقوں میں کچھ حد تک مضبوط ہے۔ کپواڑہ حلقوں سے سجاد لون کو خاصی حمایت حاصل ہے۔ ان کے مرحوم والد عبدالغنی لون ضلع کپواڑہ میں کافی معروف لیڈر تھے اور تین مرتبہ اسمبلی انتخابات جیتے تھے۔ وہی سجاد لون نے ہندواڑہ اسمبلی حلقے سے سنہ 2014 کے انتخابات نیشنل کانفرنس کے امیدوار چودھری رمضان کے خلاف جیتا تھا۔ یہ دونوں پارٹیاں کپواڑہ میں ایک دوسرے کے سخت سیاسی حریف ہے۔
کپواڑہ بارہمولہ حلقے میں کُل 18 اسمبلی حلقے ہے۔ ان حلقوں میں گجر اور پہاڑی آبادی بھی رہتی ہیں، جو سجاد لون کی حمایت کر سکتے ہیں۔ اوڑی حلقے میں راجہ اعجاز علی کے توصت سے سجاد لون پہاڑی ووٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ راجہ اعجاز علی پیپلز کانفرنس کے اہم لیڈر ہے۔
مزید پڑھیں: 'این سی انڈیا الائنس کے ساتھ ہے اور رہے گی، فاروق عبداللہ کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا'
بارہمولہ کے پٹن اسمبلی حلقے سے عمران انصاری کو بہتر حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے سنہ 2014 میں اس حلقے سے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ عمران انصاری سے قبل ان کے مرحوم والد مولوی افتخار انصاری پٹن حلقے سے کئی مرتبہ اسمبلی انتخابات جیتے تھے۔ اس حلقے میں شعیہ آبادی رہتی ہے، جن پر انصاری خاندان کا اچھا خاصہ اثر ورسوخ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عمران انصاری کو پٹن کے علاوہ بانڈی پورہ کے سونہ واری اسمبلی حلقے ، بڈگام کے بیروہ اور بارہمولہ کے سنگرامہ میں بھی کچھ حد تک حمایت ہے۔
دیگر جماعتوں بشمول نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی، کانگرس، اپنی پارٹی اور بی جے پی نے ابھی تک جموں و کشمیر پارلیمانی سیٹوں کے امیدواروں کا اعلان نہیں کیا ہے۔
- " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data="">