ETV Bharat / jammu-and-kashmir

جموں و کشمیر کی وقف اراضیوں پر پاکستانی پناہ گزینوں کا قبضہ، آر ٹی آئی میں انکشاف - Pak Refugees Occupies JK Waqf Land - PAK REFUGEES OCCUPIES JK WAQF LAND

جموں کشمیر کے مختلف علاقوں میں پاکستانی پناہ گزینوں نے وقف اراضیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ ایک سماجی کارکن کے ذریعہ آر ٹی آئی داخل کی گئی تھی جس میں یہ انکشاف ہوا ہے۔ پڑھیے تفصیلی خبر

جموں و کشمیر کی وقف اراضیوں پر پاکستانی پناہ گزینوں کا قبضہ
جموں و کشمیر کی وقف اراضیوں پر پاکستانی پناہ گزینوں کا قبضہ (Etv Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 26, 2024, 9:57 PM IST

جموں: جموں خطہ کے مختلف مقامات پر جموں کشمیر وقف بورڈ کی اراضی پر قبضہ کیا گیا ہے، اس بات کا انکشاف آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے تحت دی گئی معلومات کے ذریعے منظر عام پر آئی ہے۔ یہ آر ٹی آئی سماجی کارکن ایم ایم شجاع نے 22 جولائی 2024 کو دائر کی تھی۔ اس کی ایک کاپی ای ٹی وی بھارت کے پاس ہے۔ اس آر ٹی آئی پر جموں و کشمیر کے ایڈمنسٹریٹر/ایگزیکٹیو آفیسر کے دستخط موجود ہیں۔


آر ٹی آئی کے اعداد و شمار سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جموں خطہ میں پاکستانی پناہ گزینوں نے 1400 کنال سے زیادہ وقف اراضی پر قبضہ کیا ہے۔وقف اراضی پر جموں خطہ کے مختلف حصوں بشمول بشنہ، اکھنور اور آر ایس پورہ، گاندھی نگر، ڈگیانہ، بھٹنڈی، سوجوان میں قبضہ کیا گیا ہے۔

جموں میں تقریباً 616 کنال اراضی، اکھنور میں 105 کنال، اور آر ایس پورہ میں 8 کنال اراضی پر پاکستانی پناہ گزینوں نے قبضہ کر لیا ہے جن کو پی او جے کے پناہ گزینوں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آر ٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق انھیں غیر قانونی طور پر وقف زمین الاٹ کی گئی ہے۔


آر ٹی آئی میں انکشاف ہوا ہے کہ تجاوزات کرنے والوں نے وقف کی زمین پر دکانیں اور مکانات تعمیر کیے ہیں جبکہ کچھ اسے زرعی مقاصد کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔


اعداد و شمار کے مطابق جموں کشمیر مسلم وقف بورڈ کی اراضی کو غیر مسلم تنظیموں نے چاند نگر جموں میں خسرہ نمبر 630 کے تحت عبادت گاہیں تعمیر کر کے قبضہ کر لیا ہے اور گول گجرال میں مقامی لوگوں نے 17 کنال تجاوزات پر شمشان گھاٹ بنایا ہیں۔


سابق آئی اے ایس افسر سابق وقف ایڈمنسٹریٹر خالد حسین نے وقف بورڈ کے کام کاج اور جموں میں وقف اراضی پر تجاوزات پر سوالات اٹھائے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت تجاوزات کو خالی کرانے کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کر رہی ہے؟


سابق وقف ایڈمنسٹریٹر خالد حسین نے مزید کہا کہ جب میں وقف ایڈمنسٹریٹر تھا تو مجھے معلوم ہوا تھا کہ جموں میں وقف املاک پر سرکاری ایجنسیوں اور پرائیویٹ پارٹیوں دونوں نے بڑے پیمانے پر قبضے کیے ہیں تو میں نے قبضہ کرنے والوں سے قبضہ چھڑوانا شروع کر دیا لیکن اس کام میں کامیابی نہیں ملی کیونکہ سیاسی رہنماؤں (وزراء) اور ریونیو حکام کے اثر و رسوخ کی وجہ سے قبضہ کرنے والوں سے زمینیں واپس نہیں لی جا سکیں کیونکہ ان افسران کا کہنا تھا کہ اگر قبضہ ہٹانے کی کوشش میں امن و امان کو خطرہ لاحق ہوگا۔


سابق آئی اے ایس افسر نے کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی قیادت والی موجودہ حکومت کو تجاوزات کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے جیسا کہ وہ دوسروں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جموں کے مسلمانوں میں سیاسی طور پر آواز اٹھانے کی کمی ہے جس کی وجہ سے جموں وقف اراضی پر لوگوں نے آسانی سے قبضہ کر لیا ہے۔


آر ٹی آئی فائل کرنے والے سماجی کارکن ایم ایم شجاع نے بھی جموں کشمیر حکومت سے زمین پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں جو سیاست دان اقتدار میں تھے، انہوں نے جموں میں مسلم وقف بورڈ کی زمین کو واپس لینے کی زحمت نہیں کی جو بدقسمتی کی بات ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

جموں: جموں خطہ کے مختلف مقامات پر جموں کشمیر وقف بورڈ کی اراضی پر قبضہ کیا گیا ہے، اس بات کا انکشاف آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے تحت دی گئی معلومات کے ذریعے منظر عام پر آئی ہے۔ یہ آر ٹی آئی سماجی کارکن ایم ایم شجاع نے 22 جولائی 2024 کو دائر کی تھی۔ اس کی ایک کاپی ای ٹی وی بھارت کے پاس ہے۔ اس آر ٹی آئی پر جموں و کشمیر کے ایڈمنسٹریٹر/ایگزیکٹیو آفیسر کے دستخط موجود ہیں۔


آر ٹی آئی کے اعداد و شمار سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جموں خطہ میں پاکستانی پناہ گزینوں نے 1400 کنال سے زیادہ وقف اراضی پر قبضہ کیا ہے۔وقف اراضی پر جموں خطہ کے مختلف حصوں بشمول بشنہ، اکھنور اور آر ایس پورہ، گاندھی نگر، ڈگیانہ، بھٹنڈی، سوجوان میں قبضہ کیا گیا ہے۔

جموں میں تقریباً 616 کنال اراضی، اکھنور میں 105 کنال، اور آر ایس پورہ میں 8 کنال اراضی پر پاکستانی پناہ گزینوں نے قبضہ کر لیا ہے جن کو پی او جے کے پناہ گزینوں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آر ٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق انھیں غیر قانونی طور پر وقف زمین الاٹ کی گئی ہے۔


آر ٹی آئی میں انکشاف ہوا ہے کہ تجاوزات کرنے والوں نے وقف کی زمین پر دکانیں اور مکانات تعمیر کیے ہیں جبکہ کچھ اسے زرعی مقاصد کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔


اعداد و شمار کے مطابق جموں کشمیر مسلم وقف بورڈ کی اراضی کو غیر مسلم تنظیموں نے چاند نگر جموں میں خسرہ نمبر 630 کے تحت عبادت گاہیں تعمیر کر کے قبضہ کر لیا ہے اور گول گجرال میں مقامی لوگوں نے 17 کنال تجاوزات پر شمشان گھاٹ بنایا ہیں۔


سابق آئی اے ایس افسر سابق وقف ایڈمنسٹریٹر خالد حسین نے وقف بورڈ کے کام کاج اور جموں میں وقف اراضی پر تجاوزات پر سوالات اٹھائے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت تجاوزات کو خالی کرانے کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کیا کر رہی ہے؟


سابق وقف ایڈمنسٹریٹر خالد حسین نے مزید کہا کہ جب میں وقف ایڈمنسٹریٹر تھا تو مجھے معلوم ہوا تھا کہ جموں میں وقف املاک پر سرکاری ایجنسیوں اور پرائیویٹ پارٹیوں دونوں نے بڑے پیمانے پر قبضے کیے ہیں تو میں نے قبضہ کرنے والوں سے قبضہ چھڑوانا شروع کر دیا لیکن اس کام میں کامیابی نہیں ملی کیونکہ سیاسی رہنماؤں (وزراء) اور ریونیو حکام کے اثر و رسوخ کی وجہ سے قبضہ کرنے والوں سے زمینیں واپس نہیں لی جا سکیں کیونکہ ان افسران کا کہنا تھا کہ اگر قبضہ ہٹانے کی کوشش میں امن و امان کو خطرہ لاحق ہوگا۔


سابق آئی اے ایس افسر نے کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی قیادت والی موجودہ حکومت کو تجاوزات کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے جیسا کہ وہ دوسروں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جموں کے مسلمانوں میں سیاسی طور پر آواز اٹھانے کی کمی ہے جس کی وجہ سے جموں وقف اراضی پر لوگوں نے آسانی سے قبضہ کر لیا ہے۔


آر ٹی آئی فائل کرنے والے سماجی کارکن ایم ایم شجاع نے بھی جموں کشمیر حکومت سے زمین پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں جو سیاست دان اقتدار میں تھے، انہوں نے جموں میں مسلم وقف بورڈ کی زمین کو واپس لینے کی زحمت نہیں کی جو بدقسمتی کی بات ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.