سرینگر: میرواعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق نے مہاجر ملت، مفسر قرآن میرواعظ مولانا محمد یوسف شاہ کے فرزند ارجمند میرواعظ مولوی محمد احمد، جن کا گزشتہ دنوں پاکستان میں انتقال ہوا تھا، کو بھر پور خراج عقیدت پیش کیا۔ اس دوران انہوں نے کہا کہ وہ ایک اعلیٰ کردار کے حامل انسان، ایک ممتاز اور باکمال مذہبی رہنما عالم اور دانشور تھے۔ جن کی بے لوث اور انمول خدمات نے ان کو کشمیر کے باہر بھی ایک منفرد شناخت عطا کی تھی۔
کئی دنوں کی نظر بندی کے بعد مرکزی جامع مسجد سرینگر میں نماز جمعہ سے قبل ایک اجتماع سے خطاب کے دوران میرواعظ نے مرحوم مولوی محمد احمد صاحب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جس چیز نے انہیں وسیع پیمانے پر عوام میں متعارف کرایا تھا، وہ ان کا ریڈیو آزادکشمیر سے روزانہ کی بنیادوں پر مہاجر ملت مفسر قرآن کی کشمیری زبان میں قرآن مجید کی تفسیر ”بیان الفرقان“ کا اپنی زبان میں نشر کرنا تھا اور اس طرح انہوں نے گھر گھر قرآن کریم کا پیغام پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہمیں مولوی محمد احمد شاہ صاحب کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور ہم بارہا یہ واضح کرچکے ہیں کہ تقسیم کی وجہ سے کشمیر کے متعدد خاندان جدائی کا درد کئی دہائیوں سے سہہ رہے ہیں اور یہ مسئلہ کشمیر کا انسانی پہلو ہے اور ہم ہندوستان اور پاکستان کے ارباب اختیار و اقتدار سے اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کے اس انسانی پہلو کو سمجھیں اور اس مسئلہ کی وجہ سے جو منقسم خاندان جدائی کا درد و کرب سہہ رہے ہیں، اس کو ختم کرنے کے لیے اس مسئلہ کا کوئی قابل قبول اور منصفانہ حل تلاش کریں۔
میرواعظ نے کہا کہ مرحوم و مغفور کشمیر کی کئی دہائیوں پر محیط تاریخ کے عینی گواہ تھے اور جب ان کی عمر صرف 17 سال کی تھی تو اپنے والد محترم کی مہاجرت کے بعد اپنی شریک حیات جو میری حقیقی پھوپھی اور حضرت شہید ملت کی ہمشیر بھی تھیں سرحد کے اُس پار چلے گئے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ مرحوم نے وطن سے دور مہاجرت کے عالم میں وفات پائی اور شدید خواہش کے باوجود ان کو اپنے وطن میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی، کیونکہ ان کے والد گرامی حضرت مہاجر ملت کو بھی حکومت ہند اپنی شرائط پر کشمیر آنے کی اجازت دینا چاہتی تھی، لیکن انہوں نے ان ذلت آمیز شرائط کو ٹھکرا کر مہاجرت کی زندگی کو ہی ترجیح دی۔