ETV Bharat / jammu-and-kashmir

بچوں کا صحیح عمر میں بات چیت نہ کرنا: علامات، وجوہات اور علاج - Child Delayed Speech

ای این ٹی اسپیشلسٹ، ڈاکٹر منظور احمد لٹو کا کہنا ہے کہ بچے کے دیر سے بولنے کا سبب سماعت میں خرابی بھی ہو سکتی ہے۔

ا
ڈاکٹر منظور احمد لٹو (ای ٹی وی بھارت)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jul 9, 2024, 5:26 PM IST

سرینگر (جموں کشمیر) : ’’دو سال کی عمر میں، نارمل حالت میں، ایک بچہ تقریباً 50 الفاظ بولنا شروع کر دیتا ہے الفاظ کے ساتھ ساتھ وہ جملے بھی بولنا شروع کر دیتا ہے۔ جبکہ تین سال کے بعد بچے کے بولنے میں مزید بہتری دیکھنے کو ملتی ہے، لیکن اگر کوئی بچہ تین سال کی عمر تک یہ سب سیکھنے میں ناکام رہتا ہے تو یہ ثبوت ہے کہ بچہ بولنے میں دشواری کا سامنا کر رہا ہے، جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔‘‘ ان باتوں کا اظہار گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی) سرینگر میں شعبہ ای این ٹی کے پروفیسر اینڈ ہیڈ ڈاکٹر منظور احمد لٹو نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔

ای این ٹی اسپیشلسٹ، ڈاکٹر منظور احمد لٹو کی ای ٹی وی بھارت کے ساتھ گفتگو (ای ٹی وی بھارت)

ڈاکٹر منظور نے کہا کہ بعض اوقات بچے کے دیر سے بولنے کا ایک سبب اس کی سماعت میں خرابی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی نشونما کے مسائل اور دماغی صحت بھی اس کے اسباب میں شامل ہو سکتی ہے۔ عام طور پر وقت کے ساتھ ساتھ بچہ اپنی بات سمجھانے کے لیے مختلف اشارے یا آوازیں سیکھ لیتا ہے جبکہ چیزوں کو درست نام اور آواز سے نہ پکارنے کا مطلب بچے کا بات کرنے کے عمل میں تاخیر میں شامل ہوتی ہے۔ اس وجہ سے والدین کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ بچے کی کیفیات کا مشاہدہ کر کے اس بات کا فیصلہ کریں کہ درحقیقت بچے کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ کیونکہ علامات کی بناء پر اکثر یہ دونوں مسائل ایک جیسے ہی محسوس ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر منظور احمد لٹو نے بتایا کہ اگر پیدائشی طور پر بچہ سماعت کے قابل نہ ہوا تو ایسے بچے منہ سے بے معنی آوازيں تو نکال سکتے ہیں لیکن بامعنی الفاظ بولنے کی صلاحیت کے حامل نہیں ہوتے ہیں۔ ایسے میں مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جس کی وجہ سے بچے وقت پر بول نہیں پاتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بچے کو بولنے کے قابل بنانے کی خاطر ہم الگ الگ طریقہ کار اپناتے ہیں؛ جس میں باریکی سے تشخیص کر کے الگ الگ علاج تفویض کیا جاتا ہے۔ جس میں ہیرینگ ایڈ، اسپیچ تھیرپی اور سرجریز بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ روزانہ، او پی ڈی میں ایسے بچے زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں جو سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ کچھ بول بھی نہیں پاتے ہیں۔

اسپیچ تھرپی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر منظور نے کہا کہ ’’جی ایم سی سرینگر میں باضابط طور اس کا ایک یونٹ کام کر رہا ہے جہاں پر ایسے بچوں کے لیے تمام طبی سہولہات موجود ہیں۔ جہاں اسپیچ تھراپی کلاس روم (Speech Therapy Class Room) ہیں جس میں چھوٹے گروپس میں یا ون آن ون کی جا سکتی ہے۔ سپیچ تھیراپسٹ کے ساتھ مشقیں اور سیشن بچے کی خرابی، عمر اور ضروریات کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ بات کرنے اور کھیلنے کے ساتھ ساتھ کتابوں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر منطور نے زور دیتے ہوئے کہ والدین کو وقت ضائع کئے بغیر ڈاکٹر سے صلاح و مشورہ کرنا چاہئے، کیونکہ ’’تاخیر سے علاج کرنے سے نتائج موثر اور بہتر نہیں آ سکتے ہیں۔ ایسے میں ان بچوں کا بہتر علاج ومعالجہ کیا جا سکتا ہے جو کہ مخصوص عمر کے بعد بھی بولنے یا سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ بچے کے جنم کے بعد بچوں کے تئیں حساس رہنے کی ضرورت ہے اور اگر کسی بچے میں ایسے مسائل پائے جائیں تو اس کا بروقت علاج کروایا جائے۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: Maternal, Child Health Conclave: ماں اور بچے کی صحت کے موضوع پر کشمیر میں پہلا کنکلیو

سرینگر (جموں کشمیر) : ’’دو سال کی عمر میں، نارمل حالت میں، ایک بچہ تقریباً 50 الفاظ بولنا شروع کر دیتا ہے الفاظ کے ساتھ ساتھ وہ جملے بھی بولنا شروع کر دیتا ہے۔ جبکہ تین سال کے بعد بچے کے بولنے میں مزید بہتری دیکھنے کو ملتی ہے، لیکن اگر کوئی بچہ تین سال کی عمر تک یہ سب سیکھنے میں ناکام رہتا ہے تو یہ ثبوت ہے کہ بچہ بولنے میں دشواری کا سامنا کر رہا ہے، جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔‘‘ ان باتوں کا اظہار گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی) سرینگر میں شعبہ ای این ٹی کے پروفیسر اینڈ ہیڈ ڈاکٹر منظور احمد لٹو نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔

ای این ٹی اسپیشلسٹ، ڈاکٹر منظور احمد لٹو کی ای ٹی وی بھارت کے ساتھ گفتگو (ای ٹی وی بھارت)

ڈاکٹر منظور نے کہا کہ بعض اوقات بچے کے دیر سے بولنے کا ایک سبب اس کی سماعت میں خرابی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی نشونما کے مسائل اور دماغی صحت بھی اس کے اسباب میں شامل ہو سکتی ہے۔ عام طور پر وقت کے ساتھ ساتھ بچہ اپنی بات سمجھانے کے لیے مختلف اشارے یا آوازیں سیکھ لیتا ہے جبکہ چیزوں کو درست نام اور آواز سے نہ پکارنے کا مطلب بچے کا بات کرنے کے عمل میں تاخیر میں شامل ہوتی ہے۔ اس وجہ سے والدین کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ بچے کی کیفیات کا مشاہدہ کر کے اس بات کا فیصلہ کریں کہ درحقیقت بچے کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ کیونکہ علامات کی بناء پر اکثر یہ دونوں مسائل ایک جیسے ہی محسوس ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر منظور احمد لٹو نے بتایا کہ اگر پیدائشی طور پر بچہ سماعت کے قابل نہ ہوا تو ایسے بچے منہ سے بے معنی آوازيں تو نکال سکتے ہیں لیکن بامعنی الفاظ بولنے کی صلاحیت کے حامل نہیں ہوتے ہیں۔ ایسے میں مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جس کی وجہ سے بچے وقت پر بول نہیں پاتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بچے کو بولنے کے قابل بنانے کی خاطر ہم الگ الگ طریقہ کار اپناتے ہیں؛ جس میں باریکی سے تشخیص کر کے الگ الگ علاج تفویض کیا جاتا ہے۔ جس میں ہیرینگ ایڈ، اسپیچ تھیرپی اور سرجریز بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ روزانہ، او پی ڈی میں ایسے بچے زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں جو سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ کچھ بول بھی نہیں پاتے ہیں۔

اسپیچ تھرپی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر منظور نے کہا کہ ’’جی ایم سی سرینگر میں باضابط طور اس کا ایک یونٹ کام کر رہا ہے جہاں پر ایسے بچوں کے لیے تمام طبی سہولہات موجود ہیں۔ جہاں اسپیچ تھراپی کلاس روم (Speech Therapy Class Room) ہیں جس میں چھوٹے گروپس میں یا ون آن ون کی جا سکتی ہے۔ سپیچ تھیراپسٹ کے ساتھ مشقیں اور سیشن بچے کی خرابی، عمر اور ضروریات کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ بات کرنے اور کھیلنے کے ساتھ ساتھ کتابوں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر منطور نے زور دیتے ہوئے کہ والدین کو وقت ضائع کئے بغیر ڈاکٹر سے صلاح و مشورہ کرنا چاہئے، کیونکہ ’’تاخیر سے علاج کرنے سے نتائج موثر اور بہتر نہیں آ سکتے ہیں۔ ایسے میں ان بچوں کا بہتر علاج ومعالجہ کیا جا سکتا ہے جو کہ مخصوص عمر کے بعد بھی بولنے یا سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ بچے کے جنم کے بعد بچوں کے تئیں حساس رہنے کی ضرورت ہے اور اگر کسی بچے میں ایسے مسائل پائے جائیں تو اس کا بروقت علاج کروایا جائے۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: Maternal, Child Health Conclave: ماں اور بچے کی صحت کے موضوع پر کشمیر میں پہلا کنکلیو

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.