حیدرآباد: امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے ثالث حالیہ دنوں میں پرامید دکھائی دیے کہ وہ غزہ میں دو ماہ کی جنگ بندی اور حماس کے زیر حراست 100 سے زائد یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک معاہدے پر پہنچ رہے ہیں۔
لیکن منگل کے روز، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو نے غزہ سے صیہونی افواج کو نکالنے اور یرغمالیوں کی آزادی کے بدلے ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے حماس کے دو اہم مطالبات کو مسترد کر دیا۔ حماس اور نتن یاہو کے اس رویہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان اب بھی خلیج ہے۔
تقریباً نصف یرغمالیوں کو 240 فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں نومبر میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے دوران رہا کیا گیا تھا۔
حماس کے زیر اقتدار غزہ میں وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی جارحیت میں 26,700 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ کی 2.3 ملین آبادی میں سے تقریباً 85 فیصد اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں اور اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایک چوتھائی آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔
غزہ میں جاری جنگ دھیرے دھیرے پورے خطے میں پھیل رہی ہے۔ لبنان، شام، عراق اور یمن میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیلی اور امریکی اہداف پر حملے کیے ہیں۔ جس کا بدلہ لینے کے لیے اسرائیل اور اس کے اتحادی جوابی حملہ کر رہے ہیں۔
امریکہ اس جنگ میں اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ہے تاہم وہ جنگ بندی، شہری ہلاکتوں میں کمی کرنے اور یرغمالیوں کی رہائی پر زور دے رہا ہے۔ امریکہ نے خود سی آئی اے کے ڈائریکٹر کو جنگ بندی کے لیے کوششوں میں جٹے ثالثوں کی مدد کے لیے بھیجا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جنگ بندی کی اتنی کوششوں کے بعد دونوں فریق اسرائیل اور حماس کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے کیا رخ اپنا رہے ہیں۔
- اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو 'مکمل فتح' چاہتے ہیں:
نتن یاہو نے بارہا اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جب تک اسرائیل حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیت کو ختم نہیں کر دیتا اور تمام یرغمالیوں کو واپس نہیں لے آتا جنگ جاری رکھے گا۔ حالانکہ نتن یاہو کو اپنے اس موقف پر یرغمالیوں کے اہل خانہ اور اسرائیلی عوام کے ایک بڑے طبقہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مظاہرین اسرائیلی وزیراعظم سے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جلد از جلد جنگ بندی معاہدہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
منگل کو مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک مذہبی پری ملٹری اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے، نتن یاہو نے کہا کہ "ہم غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کو نہیں نکالیں گے اور ہم ہزاروں دہشت گردوں کو رہا نہیں کریں گے۔"
نتن یاہو کا یہ بیان، بظاہر حماس کے ساتھ کسی بھی معاہدے کو مسترد کرتا ہے، لیکن ہو سکتا ہے ایسے بیان دے کر اسرائیل معاہدے میں اپنا ہاتھ مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ حماس کے شرائط کو قبول نہیں کرنے کی نتن یاہو کی ایک دوسری وجہ حکومتی اتحاد میں شامل انتہائی قوم پرست سخت گیر لوگوں کا غلبہ ہے، جو کسی معاہدے کی مخالفت کرتے ہیں۔ اگر نتن یاہو حماس کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے اتحاد ٹوٹ جائے گا اور حکومت گر جائے گی۔
اب تک اسرائیلی فوج نے اپنے دم پر صرف ایک یرغمالی کو بازیاب کرایا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ متعدد فضائی حملوں یا ناکام امدادی کارروائیوں کے دوران کئی یرغمالی مارے گئے ہیں۔ ان میں دسمبر میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں غلطی سے تین یرغمالیوں کی ہلاکت بھی شامل ہے جو فرار ہو گئے تھے اور سفید جھنڈا لہرا رہے تھے۔
- حماس جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے:
جب تک کہ اسرائیل غزہ میں اپنی جارحیت ختم نہیں کرتا اور غزہ سے انخلا نہیں کرتا حماس نے مزید یرغمالیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ حماس ایک وسیع معاہدہ چاہتا ہے جس میں طویل مدتی جنگ بندی اور تعمیر نو شامل ہو۔
گروپ کے اعلیٰ سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ نے منگل کو کہا کہ اس کی ترجیح غزہ سے اسرائیلی افواج کا "مکمل انخلاء" ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جس میں جنگ زدہ علاقہ کی تعمیر نو، علاقے پر اسرائیلی-مصری ناکہ بندی کا خاتمے اور اسرائیلی جیلوں میں قید ہمارے تمام بہادر قیدیوں کی رہائی ہو۔
اسرائیل کا ایسا دعویٰ ہے کہ، حماس زیرزمین گہری حفاظتی سرنگوں میں یرغمالیوں کو اپنے سرکردہ رہنماؤں کے لیے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے، اور ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے سودے بازی کر رہی ہے۔ ان قیدیوں میں ایسے ہائی پروفائل عسکریت پسند بھی شامل ہیں جو اسرائیل پر حملوں میں ملوث تھے۔
اگر حماس جنگ ختم کیے بغیر یرغمالیوں کو رہا کر دیتی ہے، تو اسے جنگ بندی کی مدت ختم ہونے کے بعد اسرائیل کے اس سے بھی زیادہ بڑے حملوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حماس اگر قیدیوں کے تبادلے کو ایک بڑی کامیابی کے طور پر استعمال نہیں کرتا تو اسے فلسطینیوں کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا۔ دوسری طرف، اگر حماس طویل مدتی جنگ بندی، اسرائیلی افواج کے انخلاء اور ہزاروں قیدیوں کی رہائی کو حاصل کر لیتی ہے، تو اسے کم از کم اس کے اپنے حامیوں کی طرف سے جنگ کے فاتح کے طور پر دیکھا جائے گا۔
- ثالث درمیانی راستہ تلاش کر رہے ہیں:
امریکہ، جس نے اسرائیل کو اس حملے کے لیے اہم فوجی امداد فراہم کی ہے، جنگ میں اسرائیل کے اہداف کی بڑی حد تک حمایت کرتا ہے۔ وہ تمام یرغمالیوں کی رہائی اور اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ حماس دوبارہ کبھی 7 اکتوبر جیسا حملہ نہ کرے۔
لیکن بائیڈن انتظامیہ اس جنگ کو ختم کرنے میں گہری دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ اس جنگ نے علاقائی عدم استحکام کا جنم دیا ہے اور انتخابی سال میں ڈیموکریٹک ووٹرز کو تقسیم کیا ہے۔
عرب ممالک بشمول اہم ثالث مصر اور قطر، جنگ کے ابتدائی دنوں سے وسیع تر عدم استحکام کے خوف سے جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکی اور عرب ثالث ایک درمیانی راستہ تلاش کر رہے ہیں جس میں فلسطینی قیدیوں کے بدلے دو ماہ کے عرصے میں یرغمالیوں کو مرحلہ وار رہا کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ غزہ میں انسانی امداد کی اجازت دی جائے گی، اور اسرائیلی افواج جزوی طور پر پیچھے ہٹ جائیں گی۔
دو ماہ کی مہلت دہائیوں پرانے اسرائیل-فلسطین تنازعہ کو حل کرنے کے لیے ایک بڑے معاہدے پر بات چیت کے لیے وقت نکال سکتی ہے۔
امریکی اور عرب سفارت کاروں نے ایک ممکنہ اہم اور بڑے معاہدے کی بات کی ہے جس میں سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرے گا اور دوسرے عرب ممالک اور مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مل کر غزہ کی تعمیر نو اور حکومت کرنے میں مدد کرے گا، اس کے بدلے میں فلسطینیوں کی تخلیق کے لیے ایک قابل اعتبار راستہ ہوگا۔
لیکن نتن یاہو حکومت فلسطینی ریاست کی مخالفت کر رہی ہے، اور اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے والی حماس نے بھی اسے مسترد کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: