یروشلم: رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے والے فلسطینیوں پر صیہونی افواج کا ظلم و ستم مزید شدت اختیار کر جاتا ہے۔ رمضان میں فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کسی سے چھپی نہیں ہے۔ مقدس مہینے میں فلسطینی روزہ دار صیہونی افواج کے گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ اب جب کہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت عروج پر ہے ایسے میں اسرائیلی حکومت نے منگل کو ان مسلمان نمازیوں کے ساتھ نمٹنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے جو رمضان کے آنے والے مقدس مہینے کے دوران مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنا چاہتے ہیں۔
یہ اعلان اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ کی پٹی میں تقریباً پانچ ماہ سے جاری لڑائی کی وجہ سے شدید کشیدگی کے درمیان سامنے آیا ہے۔ ایسے خدشات تھے کہ جنگ کی وجہ سے اسرائیل مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے کمی کر دے گا۔ لیکن وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل رمضان کے پہلے ہفتے میں اتنی ہی تعداد میں مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے کی اجازت دے گا جیسا کہ اس نے گذشتہ برسوں میں کیا ہے۔ یہ فیصلہ اعلیٰ سکیورٹی حکام کے ساتھ حکومتی اجلاس میں کیا گیا۔ نتن یاہو نے کہا کہ سکیورٹی فورسز اس بات کا تعین کریں گی کہ منصوبے میں آیا کسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر اتامر بین گیئر نے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسرائیلیوں کے لیے خطرہ ہے۔
نتن یاہو کے دفتر نے اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ آیا مغربی کنارے کے فلسطینی رمضان المبارک کے دوران الاقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے لیے یروشلم میں داخل ہو سکیں گے۔ اسرائیل اور مغربی کنارے کے درمیان زیادہ تر چوکیاں 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد سے بند کر دی گئی ہیں۔
پچھلے برسوں میں، اسرائیل نے مغربی کنارے سے اجازت نامہ رکھنے والے 45 سے 55 سال کی عمر کے مردوں سمیت خواتین اور چھوٹے بچوں کو رمضان کے دوران بغیر اجازت یروشلم میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔
فلسطینی عبادت گزاروں کے لیے، اسلام کے تیسرے مقدس ترین مقام پر نماز ادا کرنا رمضان کا مرکز ہے۔ یہودی اس جگہ کو ٹمپل ماؤنٹ کے طور پر تعظیم دیتے ہیں اور یہی مسابقتی دعوے اکثر تشدد میں بدل جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: