نئی دہلی: وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت علماء ہند، جماعت اسلامی ہند اور جمعیت اہل حدیث سمیت مختلف تنظیموں نے مشترکہ پریس کانفرنس کرکے شدید طور پر مخالفت کی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور تمام مسلم تنظیمیں و ادارے اور مسالک نے لوک سبھا میں پیش کردہ نئے مجوزہ وقف ترمیمی بل کو وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر وقف جائیدادوں کو تہس نہس اور ہڑپنے کی ایک گھناؤنی سازش قرار دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بل کو واپس لے۔
اس موقع پر وقف ترمیمی بل کے حوالے سے پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ مجوزہ بل میں نہ صرف وقف کی تعریف، متولی کی حیثیت اور وقف بورڈوں کے اختیارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے بلکہ سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کے نام پر پہلی بار اس میں غیر مسلموں کو بھی لازماً ممبر بنانے کی تجویز لائی گئی ہے۔
سینٹرل وقف کونسل میں پہلے ایک غیر مسلم ممبر رکھا جاسکتا تھا، مجوزہ بل میں یہ تعداد 13 تک ہوسکتی ہے، جس میں دو تو لازماً ہونے ہی چاہیے۔ اسی طرح وقف بورڈ میں پہلے صرف چیرمین غیر مسلم ہوسکتا تھا لیکن مجوزہ بل میں یہ تعداد 7 تک ہوسکتی ہے، جبکہ بل کے مطابق دو تو لازماً ہوں گے۔ یہ تجویز دستور کی دفعہ 26 سے راست متصادم ہے جو اقلیتوں کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی و ثقافتی ادارے نہ صر ف قائم کر سکتے ہیں بلکہ اس کو اپنے انداز سے چلا بھی سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ ملک کی کئی ریاستوں میں ہندوؤں کے اوقاف کے انتظام و انصرام کے لیے یہ لازمی ہے کہ اس کے ارکان و ذمہ داران ہندو عقیدہ پر عمل پیرا ہوں۔ اسی طرح گرودوارہ پربندھک کمیٹی کےممبرس بھی لازماً سکھ طبقہ سے ہوں گے۔ اسی طرح پہلے وقف بورڈوں کے ممبران کا انتخاب ہوتا تھا، اب اس کی نامزدگی ہوا کرے گی۔
مجوزہ بل سے وقف بورڈ کے سی ای او کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ہٹادی گئی ہے۔ موجودہ وقف ایکٹ کے تحت ریاستی حکومت وقف بورڈ کی طرف سے تجویز کردہ دو افراد میں سے کسی ایک کو نامزد کر سکتی تھی جو کہ ڈپٹی سکریٹری کے رینک سے نیچے کا نہ ہو لیکن اب وقف بورڈ کے تجویز کردہ کی شرط ہٹا دی گئی ہے اور اب ڈپٹی سکریٹری کی شرط کو ہٹا کر کہا گیا ہے کہ وہ جوائنٹ سکریٹری کی رینک سے کم نہ ہو۔ یہ ترمیمات واضح طور پر سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ وں کے اختیارات کو کم کرتی ہے اور حکومت کی مداخلت کا راستہ ہموار کررہی ہے۔
مجوزہ ترمیمی بل وقف املاک پر حکومتی قبضہ کا راستہ بھی ہموار کرتا ہے۔ اگر کسی جائیداد پر حکومت کا قبضہ ہے تو اس کا فیصلہ کرنے کا کلی اختیار بھی کلکٹر کے حوالہ کر دیا گیا ہے۔ کلکٹر کے فیصلہ کے بعد وہ ریونیو ریکارڈ درست کروائے گا اور حکومت وقف بورڈ سے کہے گی کہ وہ اس جائیداد کو اپنے ریکارڈ سے حذف کر دے۔
اسی طرح اگر وقف املاک پر کوئی تنازعہ ہو تو اس کو طے کرنے کا اختیار بھی وقف بورڈ کا ذمہ تھا جو وقف ٹربیونل کے ذریعہ اسے طے کراتا تھا، اب وقف ٹریبونل کا یہ اختیار بھی مجوزہ بل میں کلکٹر کے حوالے کردیا گیا ہے۔ موجودہ وقف ایکٹ میں کسی بھی تنازعہ کو ایک سال کے اندر وقف ٹریبونل کے اندر لانا ضروری تھا، اس کے بعد کوئی تنازعہ سنا نہیں جائے گا۔ اب یہ شرط بھی ہٹادی گئی ہے۔
مجوزہ بل نے کلکٹر اور سرکاری انتظامیہ کو من مانے اختیارات دے دیے ہیں۔ آج جب کہ کلکٹر کے حکم سے مسلمانوں کی زمینوں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں تو پھر وقف املاک کے سلسلے میں ان کے رویہ پر کیسے بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟ مجوزہ بل میں وقف ایکٹ 1995 کے سیکشن 40 کو من مانے ڈھنگ سے پوری طرح حذف کردیا گیا ہے۔ یہ سیکشن وقف بورڈ کا دائرہ، حدود اور اختیار طے کرتی ہے، جس کے تحت وقف رجسٹریشن، وقف املاک کی حیثیت وغیرہ طے کی جاتی ہے۔ اب یہ تمام اختیارات کلکٹر کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔
اسی طرح سروے کمشنر کو نامزد کرنے کے وقف بورڈ کے اختیار کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ مجوزہ بل میں یہ ذمہ داری بھی کلکٹر کے حوالے کر دی گئی ہے۔ مجوزہ بل سے بحیثیت استعمال وقف کو ہٹادیا گیا ہے۔ اسلامی قانون اوقاف میں اس کا ایک اہم مقام ہے۔ جسے وقف ایکٹ 1995 میں بھی اہمیت دی گئی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ لمبے عرصہ تک بحیثیت وقف استعمال کی جگہ (مسجد، درگاہ یا قبرستان) بھی وقف تسلیم کی جائے گی، چاہے وہ وقف کی حیثیت سے رجسٹرڈ نہ ہو۔ اسے ہٹانا نہ صرف اصول وقف کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ یہ فرقہ پرست عناصر کو وقف املاک پر قبضہ کرنے کا ایک ہتھیار مل جائے گا۔
اس طرح ایسی مساجد، مدرسے، درگاہیں اور قبرستان چاہے وہ صدیوں سے استعمال میں رہے ہوں لیکن ملک کے ریوینو ریکارڈ میں اگر ان کا اندراج نہ ہو تو ان پر مقدمات، تنازعات اور غیر قانونی قبضوں کا راستہ صاف ہو جائے گا۔ مجوزہ بل میں وقف کے لیے ایک مضحکہ خیز شرط لگائی گئی ہے کہ وہ کم از کم گزشتہ پانچ برس سے اسلام پر عمل کررہا ہو۔ یہ تجویز بنیادی اخلاقیات اور دستور ہند کی روح کے بھی خلاف ہے۔ جب کہ موجودہ ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کی جانب سے کسی بھی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کو مستقل طور پر نذر کر دینا کسی ایسے مقصد کے لیے جو مسلم قانون کے تحت دینی یا خیراتی عمل تسلیم کیا گیا ہو۔ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کون شخص اسلام پر عمل پیرا ہے یا نہیں اس کی سند کون دے گا؟
جہاں ایک طرف مجوزہ بل میں غیر مسلموں کو ممبر بنانے کی تجویز ہے، وہیں یہ بل غیر مسلموں کے ذریعہ اپنی کسی جائیداد کو وقف کرنے پر پابندی لگاتا ہے۔ یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ وقف املاک حکومت کی املاک نہیں ہے، بلکہ یہ مسلمانوں کی اپنی ذاتی املاک ہیں جو انہوں نے مذہبی اور خیراتی کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ کو پیش کی ہیں۔ وقف بورڈ اور متولیوں کا رول انہیں صرف ریگولیٹ کرنے کا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، جمعیت علما ہند، جماعت اسلامی ہند، مرکزی جمعیت اہل حدیث اور تمام دینی و ملی تنظیمیں اس بل کو جو وقف املاک کو تباہ وبرباد کرنے اور ان پر قبضوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے لایا گیا ہے، کلیۃً مسترد کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسے فوری طور پر واپس لے۔
ہم این ڈی اے میں شامل سیکولر سیاسی پارٹیوں اور حزب اختلاف کی تمام پارٹیوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بل کو ہرگز ہرگز بھی پارلیمنٹ سے منظور نہ ہونے دیں۔ ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اگر وقف املاک کو تباہ کرنے والا اور وقف املاک کے قبضوں کی راہ ہموار کرنے والا یہ بل اگر پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو بورڈ مسلمانوں، دوسری اقلیتوں اور تمام انصاف پسند لوگوں کے ساتھ اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلائے گا۔
اس موقع پر پریس کو خطاب کرنے والوں میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، مولانا ارشد مدنی صدر جمعیت علماء ہند، سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند، مولانا اصغر امام مہدی سلفی امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث، مولانا محمدفضل الرحیم مجددی جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس ترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ موجود رہے۔