نئی دہلی: شہر کی مساجد میں امامت کے فرائض انجام دینے والے سینکڑوں امام اور مؤذن کافی پریشان ہیں، اس کی وجہ ان کی مہینوں سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی ہے۔ وقف بورڈ کی جانب سے کئی مہینوں سے تنخواہ ادا نہیں کی گئی ہے۔
کچھ ائمہ کرام نے آئی اے این ایس سے بات کرتے ہوئے شہری حکومت کی ان کے تئیں 'بے حسی' پر اپنا درد اور بے چینی کا اظہار کیا اور کہا کہ اجرتوں میں طویل تاخیر نے ان کی روزی روٹی مشکل بنا دی ہے۔ ایک امام نے کہا کہ "تاہم تین اقساط میں پانچ ماہ کی تنخواہ کی تقسیم نے ان کے لیے بہت ضروری ریلیف لایا"۔
اجمیری گیٹ میں واقع اینگلو عربک اسکول کے مفتی محمد قاسم نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ ان کی تنخواہیں 2022 سے روکی ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ " ائمہ کرام اور مؤذنوں کو کئی مہینوں سے تنخواہیں نہیں دی گئیں۔ ان کی تعداد 250 سے زیادہ ہے۔ ہم نے متعدد درخواستیں کی ہیں لیکن ان درخواستوں کا حال ایسا ہی ہے جیسا بہرے شخص کے سامنے گنگنایا جائے"۔
انہوں نے کہا کہ "متعدد ترغیبات کے بعد، وقف بورڈ کے ایک سرکلر نے فنڈز کے اجراء کو منظوری دے دی لیکن بہت سے لوگ اس کے لیے نااہلی کا حوالہ دیتے ہوئے اس سے محروم تھے۔ پہلے 207 امام اور 73 مؤذن تنخواہ لیتے تھے، اب صرف 185 امام اور 59 مؤذن تنخواہ لے رہے ہیں۔ کم از کم 36 عملے کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور مساجد میں باقاعدہ خدمات دینے کے باوجود کسی قسم کے معاوضے سے انکار کر دیا گیا‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ 2018 کے بعد پیدا ہوا، اس سے پہلے وقف بورڈ کی آمدنی سے تنخواہیں دی جاتی تھیں لیکن اس میں نیا طریقہ کار لانے کے بعد ان کے مسائل بڑھ گئے۔ ایک اور امام محمد ارشد وارثی نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ ’’ہمیں مہینوں سے تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔ ہم اپنی خدمات دینے کے باوجود اپنا حق حاصل نہیں کر پا رہے ہیں، ہم نظر انداز اور مایوس محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے لیے کوئی آواز نہیں اٹھاتا‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 2-3 سالوں سے اس مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ پانچ ماہ کی تنخواہوں کی تین قسطیں بڑے ریلیف کے طور پر آئیں لیکن اس میں سے بھی تیسری قسط باقی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کو 13-14 مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی جبکہ دیگر 18-19 ماہ سے انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ائمہ و موذنین مذہبی طور پر اپنے فرض پر قائم رہنے کے باوجود نظر انداز کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "یہ حیرت کی بات ہے کہ دہلی حکومت ہمارے تعاون کو تسلیم کرنے اور ہمیں ہمارا حق دینے میں کیوں ناکام رہتی ہے۔ حکومت میں بہت سے محکمے ہیں لیکن ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس کا سامنا صرف ائمہ کرام اور مؤذنین کو ہی کیوں کرنا پڑتا ہے؟ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے یہ معاملہ دہلی کے کابینہ وزیر آتشی کے ساتھ اٹھایا لیکن انہیں کبھی بھی واضح یقین دہانی نہیں ملی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تقریباً پانچ سال قبل ائمہ کرام کو تنخواہوں میں اضافہ دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہماری تنخواہ 10,000 روپے تھی جو کہ اب 18,000 روپے تک پہنچ گئی ہے تاہم مہنگائی کی سطح کو دیکھتے ہوئے اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بہت سے ائمہ کرام نے کچھ عرصہ قبل دہلی ایل جی سے ملاقات کی تھی۔
ایک امام صاحب نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ "یہ صرف ایل جی کے تسلیم کرنے اور ہمارے خدشات کو دور کرنے کے بعد تھا کہ ہماری تنخواہیں طویل تاخیر کے بعد جاری کی گئیں۔ ایل جی نے حکام سے 15 دنوں میں مسئلہ حل کرنے کو کہا اور اس پر عمل درآمد کیا گیا، اس کے بعد پھر حالات ویسے ہی ہوگئے ہیں۔