اردو

urdu

ETV Bharat / state

قربانی کا گوشت وزن کر کےتقسیم کریں: مفتی عبدالرازق - EId Ul Adha 2024 - EID UL ADHA 2024

عید الاضحٰی کے تہوار کو لے کر مسلمانوں میں کافی جوش و خروش ہے ہر صاحب نصاب قربانی کرنے کے لئے بے تاب ہے اور ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے لاکھوں جانور اللہ کی رضا کی خاطر ذبح کرنے کے لئے تیار ہیں۔

President jamiat Ulam hindi delhi
President jamiat Ulam hindi delhi (etv bharat)

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jun 16, 2024, 5:33 PM IST

Updated : Jun 16, 2024, 6:59 PM IST

نئی دہلی: قربانی کس پر فرض ہے،قربانی کے جانوروں کی کیا عمر ہونی چاہئے، قربانی کے گوشت کی تقسیم کا طریقہ کیا ہے؟ اس کے گوشت کس طرح تقسیم کرنا چاہئے، کیا قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دے سکتے ہیں ہے۔ ان سارے مسائل پر معروف عالم دین اور جمعیت علماء ہند صوبہ دہلی کے ناظم اعلی مفتی عبدالرازق نے جوابات دیے ہیں۔

President jamiat Ulam hindi delhi (etv bharat)

انہوں نےکہا کہ شریعتِ مطہرہ میں قربانی کے جانور کی قربانی درست ہونے کے لیے ان کے لیے ایک خاص عمر کی تعین ہے، یعنی بکرا ، بکری وغیرہ کی ایک سال، گائے ، بھینس وغیرہ کی دو سال، اور اونٹ ، اونٹنی کی عمر پانچ سال پورا ہونا ضروری ہے، دنبہ اور بھیڑ وغیرہ اگر چھ ماہ کا ہوجائے، لیکن وہ صحت اور فربہ ہونے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی بھی درست ہوگی۔ اگر یقینی طور پر معلوم ہو کہ ان جانوروں کی اتنی عمریں ہوگئیں ہیں (مثلاً: جانور کو اپنے سامنے پلتا بڑھتا دیکھا ہو اور ان کی عمر بھی معلوم ہو) تو ان کی قربانی درست ہے، پکے دانت نکلنا ضروری نہیں، بلکہ مدت پوری ہونا شرط ہے۔ احتیاطاً دانت کو عمر معلوم کرنے کے لیے علامت کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، دانتوں کی علامت ایسی ہے کہ اس میں کم عمر کا جانور نہیں آسکتا ، ہاں زیادہ عمر کا آنا ممکن ہے، یعنی تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ مطلوبہ عمر سے پہلے جانور کے دو دانت نہیں نکلتے۔

انہوں نے کہا کہ قربانی کی عبادت بندے کی اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ عشق و محبت کا مظہر ہے، ہونا یہ چاہیے تھا کہ بندہ خود اللہ تبارک و تعالی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا، مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اللہ تعالی نے جانوروں کو ذبح کرنا اس کے قائم مقام قرار دے دیا، اور جس شخص کو بھی اللہ تبارک وتعالی نے مالی وسعت عطا فرمائی ہے وہ شخص قربانی کرنا اہم دینی فریضہ سمجھتا ہے اور بہت بد نصیب ہے وہ آدمی جو باوجود مالی وسعت کے اس عظیم عبادت سے محروم رہے۔

مفتی عبدالرازق نے مزید کہا کہ اگر بڑے جانور میں کئی حضرات شریک ہوں تو ایسی اجتماعی قربانی کے جانور کا گوشت شرکاء کے درمیان تقسیم کرنا شرعاً لازم نہیں ہے، البتہ اگر تقسیم کرنا ہو تو وزن کر کے برابری کے ساتھ تقسیم کرنا لازم ہے، اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں ہے، چاہے شرکاء کمی زیادتی پر راضی ہی کیوں نہ ہوں، البتہ اگر گوشت کی تقسیم کے وقت قربانی کے جانور کے دیگر اعضاء مثلاً کلہ، پائے، وغیرہ کو بھی گوشت کے ساتھ رکھ کر تقسیم کرلیا جائے تو پھر تول کر تقسیم کرنا لازم نہیں ہوگا، بلکہ اندازے سے کمی بیشی کے ساتھ تقسیم کرنا بھی جائز ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ گوشت کی تقسیم کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس میں سے ایک حصہ غرباء میں دےدے اور ایک حصہ رشتہ داروں میں دےدے اور ایک حصہ خود رکھے۔ لہذا گھر کے افراد مل کر اجتماعی قربانی کرتے ہیں اور گوشت تقسیم کیے بغیر گھر میں اکٹھا رکھ دیتے ہیں تو وہ اجتماعی طور پر باہمی رضامندی سے اس مستحب عمل کو ادا کرسکتے ہیں، اس طور پر وہ اجتماعی طور پر جانور کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کردیں ایک فقراء کے لیے، ایک رشتہ داروں کے لیے، اور ایک اپنے لیے، ورنہ بصورتِ دیگر ہر شریک اپنے حصے میں سے یہ تین حصے کرلے تو اس کے لیے یہ بہتر صورت ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ قربانی کا گوشت غیرمسلم میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

Last Updated : Jun 16, 2024, 6:59 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details