کولہاپور کے وشال گڑھ میں ہونے والے تشدد کو لیکر حکومت کی خاموشی ہے۔ پولیس نے مقدمہ درج کیا ہے۔ اور ریاست کی ڈی جی نے کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن اس کارروائی سے سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی بالکل بھی مطمئن نہیں ہیں۔ وشال گڑھ میں ہونے ولے اس تشدد کا آغاز کہاں سے ہوا یہی سمجھنے والی بات ہے۔ آغاز کس نے کیا یہ بھی سوچنے والی بات ہے۔
KOLHAPUR VISHALGARH VIOLENCE (Etv Bharat) کولہاپور کے کانگریس رکن پارلیمنٹ ساہو چھترپتی مہاراج نے وشال گڑھ قلعہ کے اطراف میں ہونے والی غیر قانونی تعمیرات کو لیکر اطراف کے گاؤں کا دورہ کیا۔ پولیس نے اُنہیں وشال گڑھ قلعہ کے اطراف میں متنازعہ اراضی پر جانے سے روک دیا۔ مقامی لوگوں نے اُن سے کچھ شکایتیں بھی کی۔ جبکہ غیر قانونی تعمیرات کے کئی معاملے کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ حالانکہ اُن کے صاحب زادے سانبھا جی راجے گذشتہ کچھ دنوں سے جارحانہ رویہ اختیار کئے بیٹھے ہیں۔ اور اسی رویہ کے سبب کچھ لوگ پورے لاؤ لشکر کے ساتھ اس علاقے میں پہنچ کر جم کر نہ صرف توڑ پھوڑ کی بلکہ بڑے پیمانے جسمانی اور مالی نقصان پہنچایا۔ پاس میں ہی درگاہ اور مسجد میں جم کر تشدد برپا کیا گیا۔ سوشل سائٹس سے لیکر ہر جگہ اس واردات کی مذمت ہو رہی ہے۔
واضح رہے کہ قلعہ میں ہی حضرت سید ملک ریحان رحمت اللہ علیہ کی درگاہ اور مسجد ہے جو سن 1186 میں بادشاہ عادل شاہ کے دور حکومت سے موجود ہے۔ اور یہاں موجود بستی میں مکین گزشتہ کئی نسلوں سے مقیم ہیں۔ آپ کو بتا دیں کہ یہ تشدد مسلم بستیوں میں ہی ہوا ہے اور سیاسی رہنما اس تشدد کے بعد پولیس کی ناکامی بیان کر رہے ہیں۔ کیونکہ اس طرح کے تشدد سے قبل پولیس کو جانکاری ملی تھی۔ یہی نہیں پولیس کو واردات کا علم ہونے کے بعد بھی حمله آوروں نے جم کر تماشا کیا۔ اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ رکن پارلیمنٹ ساہو چھترپتی کانگریس پارٹی سے وابستہ ہیں۔۔جبکہ اُن کے صاحب زادے سانبھا جی راجے اور اُنکے کارکنان مسلمانوں کی بستیوں میں تشدد برپا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
سیاسی ذرائع سے یہ پتہ چلا ہے کہ اُن کے صاحب زادے کو اس بار اسمبلی انتخابات میں کانگریس ٹکٹ نہیں دے گی۔ اُنہیں شندے گروپ سے ٹکٹ مل سکتا ہے۔ جبکہ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ سیاسی لڑائی میں باپ اور بیٹے کے رشتوں میں تلخیاں پیدا ہوئی ہیں۔ یہی سبب ہے کی آپسی رنجشیں اور تلخیوں کے سبب انتخاب سے پہلے نفرت کی سیاست کھیلی گئی جس کا شکار وہ لوگ ہوئے ہیں جو ان کے ووٹرز تھے۔ حالانکہ کارروائی کا مطالبہ کانگریس نے بڑے زور شور سے کیا لیکن شاید وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ باپ اور بیٹوں کی سیاسی لڑائی میں مسلمان کیسے پس رہا ہے۔