اڈوپی(کرناٹک): کرناٹک حکومت نے اڈوپی ضلع کے گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج کنڈا پور کے حجاب تنازع میں ملوث پرنسپل رام کرشنا بی جی کے لیے بہترین پرنسپل کا ایوارڈ عوام اور مختلف سماجی شخصیات کی جانب سے برہمی کے اظہار کے بعد روک دیا۔
کرناٹک حکومت کی جانب سے یہ فیصلہ جمعرات 5 ستمبر کو ہوا، جس دن ٹیچرس ڈے منایا جاتا ہے۔ کانگریس حکومت نے تعلیمی سال 2023-24 کے لیے سرکاری اسکولوں اور پری یونیورسٹی کالجوں کے کل 41 اساتذہ، پرنسپلوں اور لیکچراروں کو بہترین اساتذہ کے ایوارڈ کا اعلان کیا تھا۔
یہ تنازع دو سال پہلے کے ایک واقعے سے شروع ہوا تھا جب اس وقت کے پرنسپل رام کرشنا بی جی نے سرکاری حکم کی تعمیل میں حجاب پہننے والے طالبات کو کالج میں داخل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اس اقدام کی وجہ سے کرناٹک بھر میں بالخصوص منگلور، منڈیا اور اُڈپی اضلاع میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔
کانگریس حکومت کی جانب سے حجاب تنازع میں ملوث پرنسپل کے لئے ایوارڈ کے اعلان کے بعد کچھ 'ترقی پسند' افراد نے سوشل میڈیا پر اس فیصلے کی سخت نکتہ چینی کی، جس کے نتیجے میں کافی ردعمل سامنے آیا۔ اس کے جواب میں ریاستی حکومت نے ایوارڈ کو روکنے کا فیصلہ کیا۔
کرناٹک کے پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے وزیر مدھو بنگارپا نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "اس خاص مسئلے کو مجھے لگتا ہے کہ کمیٹی نے نظر انداز کر دیا ہے۔" تو جب ہمیں کل پتہ چلا کہ اس پرنسپل کے ساتھ ایک مسئلہ تھا، ہم نے اسے فی الحال روک دیا ہے اور پھر آگے بڑھیں گے اور میں نے ان سے کہا ہے کہ اس نے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اس معاملے پر سیاست نہ کریں"۔
فرنٹ لائن ہندو تنظیم نے سدارامیا حکومت پر خوشامد میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ وی ایچ پی نارتھ کرناٹک کے نائب صدر گووردھن راؤ نے کہا ہے کہ "ہم اس کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ تعلیم کے شعبے میں بہترین کام کرنے والے لوگوں کو بہترین استاد کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔ اس لیے کسی اور وجہ سے ایوارڈ کو روک دینا قابل مذمت ہے"۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اس روک کو واپس لے۔
سابق مرکزی وزیر راجیو چندر شیکھر نے سدارامیا حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ "یہ وہی ہے جو ٹیچرز ڈے 2024 کے موقع پر بے شرمی کی خوشامد کی سیاست نظر آتی ہے، ایک بہترین اساتذہ میں سے ایک کے طور پر منتخب پرنسپل کو ایوارڈ دینے سے روک دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس نے حجاب پر پابندی کے قانون کو نافذ کیا"۔
ریاست کرناٹک کے اڈوپی ضلع اور اس کے بعد دیگر اضلاع میں سنہ 2022 میں حجاب تنازع شروع ہوا تھا۔ اس حجاب تنازع نے 2022 میں کرناٹک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اڈوپی ضلع کے گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج کنڈا پور کے پرنسپل کی جانب سے حجاب میں ملبوس مسلم طالبات پر کالج کے دروازے بند کرنے کا ویڈیو بڑے پیمانے پر وائرل ہوا تھا اور یہ پرنسپل اس وقت سرخیوں میں آئے تھے۔
حجاب تنازع کے باعث اس وقت کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیر اقتدار ریاست میں کشیدہ صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ مسلم طالبات کی جانب سے کالج میں داخل ہونے کی اجازت دینے کی شدید التجا کے باوجود اس پرنسپل نے دروازے بند کر دیے تھے۔ کالج کے پرنسپل کے اس کے اقدام نے بڑے پیمانے پر تنقید اور بین الاقوامی توجہ مبذول کروائی، کرناٹک میں حجاب کے معاملے کی متنازع نوعیت کو اجاگر کیا۔
واضح رہے کہ حجاب کا تنازع دسمبر 2021 میں اس وقت شروع ہوا جب پری یونیورسٹی کی چھ طالبات کو حجاب یا سر پر اسکارف کے ساتھ کلاس رومز میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ صرف ایک ضلع سے شروع ہوا یہ معاملہ پوری ریاست میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا جہاں کئی سرکاری تعلیمی اداروں نے اس طریقہ کار پر عمل کرنا شروع کر دیا اور حجاب میں ملبوس طالبات کو تعلیمی اداروں میں نہ صرف داخل ہونے سے روکا گیا بلکہ مسلم طالبات کو سالانہ امتحان دینے سے بھی روک دیا گیا تھا۔
اس معاملے نے اس وقت ایک ناگوار موڑ اختیار کیا جب زعفرانی شالوں میں ملبوس ہندو طلباء نے حجاب میں ملبوس مسلم ہم جماعت طالبہ کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اسکول اور پری یونیورسٹیاں بند کردی گئیں۔ مسلم طالبات حکومت کے فیصلے کے خلاف کرناٹک ہائی کورٹ سے رجوع ہوئیں جہاں 15 مارچ 2022 کو کرناٹک ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کے اس فیصلے کو برقرار رکھا جس میں کہا گیا تھا کہ حجاب ضروری نہیں ہے اور طلباء کو اپنے متعلقہ اداروں کے قوانین پر عمل کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: باحجاب مسلم خواتین کی نمایاں کامیابیاں۔
کرناٹک میں حجاب پر پابندی کی برخواستگی پر ملا جلا رد عمل