- بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ترجمہ:ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَٰبَتۡهُم مُّصِيبَةٞ قَالُوٓاْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ (156)
(جن کی یہ عادت ہے) کہ ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو (مع مال واولاد حقیقتہ) اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں اور ہم سب (دنیا سے) اللہ تعالیٰ ہی کے پاس جانیوالے ہیں۔
أُوْلَٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ صَلَوَٰتٞ مِّن رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٞۖ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُهۡتَدُونَ (157)
ترجمہ: ان لوگوں پر (جدا جدا) خاص خاص رحمتیں بھی ان کے پروردگار کی طرف سے ہونگی اور (سب پر بلاشتراک) عام رحمت بھی ہوگی اور یہی لوگ ہیں جن کی (حقیقت حال) تک رسائی ہوگئی۔(5)
5 ۔ یہ خطاب ساری امت کو ہے تو سب کو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا دار المحن ہے یہاں کے حوادث کو عجیب اور بعید نہ سمجھنا چاہیے۔
إِنَّ ٱلصَّفَا وَٱلۡمَرۡوَةَ مِن شَعَآئِرِ ٱللَّهِۖ فَمَنۡ حَجَّ ٱلۡبَيۡتَ أَوِ ٱعۡتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَاۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيۡرٗا فَإِنَّ ٱللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ (158)
ترجمہ:تحقیقا صفا اور مروہ منجملہ یادگار (دین) خداوندی ہیں سو جو شخص حج کرے بیت اللہ کا یا (اس کا) عمرہ کرے اس پر ذرا بھی گناہ نہیں ان دونوں کے درمیان آمدورفت کرنے میں (جس کا نام سعی ہے) اور جو شخص خوشی سے کوئی امر خیر کرے حق تعالیٰ (اس کی بڑی) قدردانی کرتے ہیں ( اور اس خیر کرنے والے کی نیت و خلوص کو) خوب جانتے ہیں۔(6)
6 ۔ حج اور عمرہ اور سعی کا طریقہ فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے اور یہ سعی امام احمد کے نزدیک سنت مستحبہ ہے اور امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک فرض ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک واجب ہے کہ ترک سے ایک بکری ذبح کرنا پڑتی ہے۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَكۡتُمُونَ مَآ أَنزَلۡنَا مِنَ ٱلۡبَيِّنَٰتِ وَٱلۡهُدَىٰ مِنۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنَّٰهُ لِلنَّاسِ فِي ٱلۡكِتَٰبِ أُوْلَٰٓئِكَ يَلۡعَنُهُمُ ٱللَّهُ وَيَلۡعَنُهُمُ ٱللَّٰعِنُونَ (159)
ترجمہ:جو لوگ اخفا کرتے ہیں (ان مضامین کا) جن کو ہم نے نازل کیا ہے جو کہ (اپنی ذات میں) واضح ہیں اور (دوسروں کو) ہادی ہیں بعد اس کے کہ ہم ان کو کتاب (الہٰی تورات و انجیل) میں عام لوگوں پر ظاہر کرچکے ہوں ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ بھی لعنت فرماتے ہیں اور (دوسرے بہتیر ے) لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ (1)
1 ۔ اس آیت میں کتمان حق پر جو وعید مذکور ہوئی ہے کہ ہر چند کہ ہر امر حق کے باب میں لفظا عام ہے لیکن بقرینہ جملہ یعرفونه كما يعرفون ابناء هم باقتضا خصوصیت مقام زیادہ مقصود بالنفل مسئله رسالت محمدیہ علی صاحبھا الف الف سلام ہے۔ پس اس لحاظ سے اس آیت میں اثبات ہوا مسئلہ رسالت کا چونکہ اعتقاد و توحید اور اعتقاد رسالت دونوں اعتبار شرع میں متلازم ہیں اس لیے آیت آئندہ میں مسئلہ توحید کی تقریر فرمائی جاتی ہے۔
إِلَّا ٱلَّذِينَ تَابُواْ وَأَصۡلَحُواْ وَبَيَّنُواْ فَأُوْلَٰٓئِكَ أَتُوبُ عَلَيۡهِمۡ وَأَنَا ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ (160)
ترجمہ:مگر جو لوگ توبہ کرلیں اور صلاح کرلیں اور (ان مضامین کو) ظاہر کردیں تو ایسے لوگوں پر میں متوجہ ہوجاتا ہوں اور میری تو بکثرت عادت ہے تو بہ قبول کرلینا اور مہربانی فرمانا۔
- تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَٰبَتۡهُم مُّصِيبَةٞ قَالُوٓاْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ (156)
ترجمہ:اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ "ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے 156"
156- سورة البقرة 156
کہنے سے مراد صرف زبان سے یہ الفاظ کہنا نہیں ہے، بلکہ دل سے اس بات کا قائل ہونا ہے کہ ” ہم اللہ ہی کے ہیں “ ، اس لیے اللہ کی راہ میں ہماری جو چیز بھی قربان ہوئی، وہ گویا ٹھیک اپنے مصرف میں صرف ہوئی، جس کی چیز تھی اسی کے کام آگئی۔ اور یہ کہ " اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹنا ہے “ ، یعنی بہر حال ہمیشہ اس دنیا میں رہنا نہیں ہے۔ آخر کار، دیر یا سویر، جانا خدا ہی کے پاس ہے۔ لہٰذا کیوں نہ اس کی راہ میں جان لڑا کر اس کے حضور حاضر ہوں۔ یہ اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ ہم اپنے نفس کی پرورش میں لگے رہیں اور اسی حالت میں، اپنی موت ہی کے وقت پر کسی بیماری یا حادثے کے شکار ہو جائیں۔
أُوْلَٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ صَلَوَٰتٞ مِّن رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٞۖ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُهۡتَدُونَ (157)
ترجمہ:انہیں خوش خبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں
إِنَّ ٱلصَّفَا وَٱلۡمَرۡوَةَ مِن شَعَآئِرِ ٱللَّهِۖ فَمَنۡ حَجَّ ٱلۡبَيۡتَ أَوِ ٱعۡتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَاۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيۡرٗا فَإِنَّ ٱللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ (158)
ترجمہ:یقیناً صفا اور مَروہ، اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے 157، اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ اِن دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کر لے 158 اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے او ر وہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔ 159
157- ذو الحجہ کی مقرر تاریخوں میں کعبے کی جو زیارت کی جاتی ہے، اس کا نام حج ہے اور ان تاریخوں کے ما سوا دوسرے کسی زمانے میں جو زیارت کی جائے، وہ عمرہ ہے۔
158- صفا اور مروہ مسجد حرام کے قریب دو پہاڑیاں ہیں، جن کے در میان دوڑنا منجملہ ان مناسک کے تھا، جو اللہ تعالیٰ نے حج کے لیے حضرت ابراہیم کو سکھائے تھے۔ بعد میں جب لگے اور آس پاس کے تمام علاقوں میں مشرکانہ جاہلیت پھیل گئے، تو صفا پر " اساف " اور مروہ پر " نائلہ “ کے استھان بنا لیے گئے اور ان کے گرد طواف ہونے لگا۔ پھر جب نبی سلام کے اسلام کی روشنی اہل عرب تک پہنچی، تو مسلمانوں کے دلوں میں یہ سوال کھٹکنے لگا کہ آیا صفا اور مروہ کی سعی حج کے اصلی مناسک میں سے ہے یا محض زمانہ شرک کی ایجاد ہے، اور یہ کہ سعی سے کہیں ہم ایک مشرکانہ فعل کے مرتکب تو نہیں ہو جائیں گے۔ نیز حضرت عائشہ کی روایت سے ذریعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل مدینہ کے دلوں میں پہلے ہی سے سعی بین الصفا والمروہ کے بارے میں کراہت موجود تھی، کیونکہ وہ مناۃ کے معتقد تھے اور اساف و نائلہ کو نہیں مانتے تھے۔ انہی وجوہ سے ضروری ہوا کہ مسجد حرام کو قبلہ مقرر کرنے کے موقع پر ان غلط فہمیوں کو دور کر دیا جائے جو صفا اور مروہ کے بارے میں پائی جاتی تھیں، اور لوگوں کو بتادیا جائے کہ ان دونوں مقامات کے درمیان سعی کرنا حج کے اصلی مناسک میں سے ہے اور یہ کہ ان مقامات کا تقدس خدا کی جانب سے ہے، نہ کہ اہل جاہلیت کی من گھڑت۔
159- یعنی بہتر تو یہ ہے کہ یہ کام دلی رغبت کے ساتھ کرو، ورنہ حکم بجا لانے کے لیے تو کرنا ہی ہوگا۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَكۡتُمُونَ مَآ أَنزَلۡنَا مِنَ ٱلۡبَيِّنَٰتِ وَٱلۡهُدَىٰ مِنۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنَّٰهُ لِلنَّاسِ فِي ٱلۡكِتَٰبِ أُوْلَٰٓئِكَ يَلۡعَنُهُمُ ٱللَّهُ وَيَلۡعَنُهُمُ ٱللَّٰعِنُونَ (159)
ترجمہ:جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، درآں حالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی اُن پر لعنت بھیجتے ہیں۔ 160
160- علمائے یہود کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ انہوں نے کتاب الله کے علم کی اشاعت کرنے کے بجائے اس کو ربیوں اور مذہبی پیشہ وروں کے ایک محدود طبقے میں مقید کر رکھا تھا اور عام خلائق تو در کنار، خود یهود عوام تک کو اس کی ہوا نہ لگنے دیتے تھے۔ پھر جب عام جہالت کی وجہ سے ان کے اندر گمراہیاں پھیلیں، تو علما نے نہ صرف یہ کہ اصلاح کی کوئی کوشش نہ کی، بلکہ وہ عوام میں اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے ہر اس ضلالت اور بدعت کو، جس کا رواج عام ہو جاتا، اپنے قول و عمل سے یا اپنے سکوت سے الٹی سند جواز عطا کرنے لگے۔ اسی سے بچنے کی تاکید مسلمانوں کو کی جارہی ہے۔ دنیا کی ہدایت کا کام جس امت کے سپرد کیا جائے، اس کا فرض یہ ہے کہ اس ہدایت کو زیادہ سے زیادہ پھیلائے، نہ یہ کہ بخیل کے مال کی طرح اسے چھپا رکھے۔
إِلَّا ٱلَّذِينَ تَابُواْ وَأَصۡلَحُواْ وَبَيَّنُواْ فَأُوْلَٰٓئِكَ أَتُوبُ عَلَيۡهِمۡ وَأَنَا ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ (160)
ترجمہ:البتہ جو اس روش سے باز آ جائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے، اُسے بیان کرنے لگیں، اُن کو میں معاف کر دوں گا اور میں بڑا در گزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں
- کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ٱلَّذِينَ إِذَآ أَصَٰبَتۡهُم مُّصِيبَةٞ قَالُوٓاْ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّآ إِلَيۡهِ رَٰجِعُونَ (156)
ترجمہ:کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا-
أُوْلَٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ صَلَوَٰتٞ مِّن رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٞۖ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُهۡتَدُونَ (157)
ترجمہ:یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی درُودیں ہیں اور رحمت اور یہی لوگ راہ پر ہیں،
إِنَّ ٱلصَّفَا وَٱلۡمَرۡوَةَ مِن شَعَآئِرِ ٱللَّهِۖ فَمَنۡ حَجَّ ٱلۡبَيۡتَ أَوِ ٱعۡتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَاۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيۡرٗا فَإِنَّ ٱللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ (158)
ترجمہ:بیشک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں سے ہیں تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے پھیرے کرے اور جو کوئی بھلی بات اپنی طرف سے کرے تو اللہ نیکی کا صلہ دینے خبردار ہے۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ يَكۡتُمُونَ مَآ أَنزَلۡنَا مِنَ ٱلۡبَيِّنَٰتِ وَٱلۡهُدَىٰ مِنۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنَّٰهُ لِلنَّاسِ فِي ٱلۡكِتَٰبِ أُوْلَٰٓئِكَ يَلۡعَنُهُمُ ٱللَّهُ وَيَلۡعَنُهُمُ ٱللَّٰعِنُونَ (159)
ترجمہ:بیشک وہ جو ہماری اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں بعد اس کے کہ لوگوں کے لئے ہم اسے کتاب میں واضح فرما چکے ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنے والوں کی لعنت۔
إِلَّا ٱلَّذِينَ تَابُواْ وَأَصۡلَحُواْ وَبَيَّنُواْ فَأُوْلَٰٓئِكَ أَتُوبُ عَلَيۡهِمۡ وَأَنَا ٱلتَّوَّابُ ٱلرَّحِيمُ (160)
ترجمہ:مگر وہ جو توبہ کریں اور سنواریں اور ظاہر کریں تو میں ان کی توبہ قبول فرماؤں گا اور میں ہی ہوں بڑا توبہ قبول فرمانے والا مہربان،
مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: جو اللہ کی راہ میں شہید ہوجائیں انہیں مردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں۔ قرآن کی پانچ آیات کا یومیہ مطالعہ