بنارس ہندو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے زیراہتمام منعقدہ خصوصی مذاکرہ میں مہمان خصوصی کی حیثیت پروفیسر زماں آزردہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’میں نے قاضی عبدالودود کو دیکھا ہے۔ وہ بیرسٹر تھے لیکن اردو کے لیے ان کی خدمات تاریخ ساز تھیں‘۔ انہوں نے ریسرچ جرنل دستک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم جن تحریروں پر تنقیدیں لکھتے ہیں کل اسی طرح ہماری تحریروں پر تنقیدی تحریریں لکھی جائیں گی۔ اس لیے ہمیں محنت کرکے تحریریں لکھنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ پروفیسر زماں آزردہ نے دوسری زبانوں کی تحریروں کے ترجمے شائع کرنے کی طرف خصوصی توجہ دلائی اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
مذاکرے کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ ادب کے حوالے سے ہم بدترین دور سے گذر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کتابیں لکھنے والے بہت ہیں لیکن زماں آزردہ کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے لکھا تو بہت کم ہے لیکن جو بھی لکھا ہے وہ بہت اہم ہے۔ انہوں نے مرزا دبیر پر جو کام کیا ہے وہ لائق ستائش ہے۔
پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ اردو والے احساس کمتری کے شکار ہیں۔ انہیں اس سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بی ایچ یو کی اہمیت پر خصوصی گفتگو کی۔ انہوں نے یہاں کے پرامن ماحول کی تعریف کی۔
ڈاکٹر مشرف علی نے مہمانوں کا تعارف کرایا اور ریسرچ جرنل 'دستک' کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔ تازہ شمارے پر اظہار خیال کرتے ہوئے شعبہ فارسی کے استاذ ڈاکٹر مغیث احمد نے کہاکہ یو جی سی کیر لسٹ میں شامل ہونے پر میں رسالے کے ذمہ داران کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے رسالے میں شامل اداریے پر خصوصی گفتگو کی۔
ڈاکٹر افضل مصباحی نے کہاکہ یہ رسالہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے مشمولات بے حد اہم ہیں۔ کووڈ-19 کے زمانے میں اسے شائع کیا جانا تاریخ ساز قدم ہے۔ رسالے کے ایڈیٹر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی اس کے لیے انتھک کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ڈاکٹر قاسم انصاری نے کہا کہ اردو کے تمام رسائل قاری کی تلاش میں ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ لوگوں میں مطالعہ کی عدم دلچسپی ہے۔
ڈاکٹر عقیل احمد استاذ شعبہ فارسی نے کہا کہ ہمارے منتشر خیالات کو یکجا کرکے دستک میں شامل کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیق اور تنقید پر جو مضامین دستک میں شائع کئے گئے ہیں وہ بے حد معلوماتی ہیں۔ انہوں نے رسالے میں شامل تحقیقی مضمون 'یادگار غالب: چند تحقیقی مباحث' پر خصوصی گفتگو کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
پروفیسر سید عباس حسن نے کہا کہ ہماری یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے جو علمی، تحقیقی اور تنقیدی رسالہ شائع کیا جارہا ہے اسے طلبہ دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور اساتذہ کے قدم بہ قدم ساتھ رہیں اور اس سے استفادہ کریں۔
پروفیسرشاہنہ رضوی نے کہاکہ غالب کی شخصیت پر کوئی مقالہ نظر آتا ہے تو اسے پڑھنے کا اشتیاق بڑھ جاتا ہے۔ اس رسالے میں شائع مقالے میں غالب کے حوالے سے جن پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئ ہے وہ بہت اہم ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر رقیہ بانو کے مضمون 'لداخی زبان: لسانی بحث' پر خصوصی گفتگو کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر احسان حسن نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر عبد السمیع نے پروگرام کی نظامت کی۔ اس مذاکرے میں ڈاکٹر اشفاق احمد،ڈاکٹرقمر، ڈاکٹرریحان، ڈاکٹر رشی کمار، پروفیسر تعیبر کلام، ڈاکٹر راہل چترویدی، بڑی تعداد میں طلبہ وطالبات اور ریسرچ اسکالرز نے شرکت کی۔