پہلے مظاہرہ پرسکون تھا لیکن شام ڈھلتے ڈھلتے پر تشدد ہو گیا، جس کے بعد بڑے پیمانے پر توڑ پھوڑ اور آتشزنی کی وارداتیں ہوئیں۔
اس سے سرکاری املاک کو کروڑوں کا نقصان ہوا، جس کے بعد ضلع انتظامیہ اور لکھنو پولیس نے ایسے لوگوں کی نشاندہی کرکے انہیں نوٹس بھیجا تھا۔
شہر کے کئی علاقوں کے ساتھ ہی حضرت گنج کے اٹل چوک میں 57 لوگوں کی فوٹو بڑے بڑے ہورڈنگز میں شائع کی گئی۔
اس معاملے کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی بینچ نےسنجیدگی سے لیا اور یوگی حکومت کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے لکھنؤ کے ڈی ایم اور ڈویژنل پولیس کمشنر سے جواب داخل کرنے کا حکم دیا۔
حالانکہ اتوار کو خراب موسم کی وجہ سے یہ سماعت دس بجے نہ ہو کر 3:00 بجے ہوئی، جس کے بعد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا اور آج یہ فیصلہ سنایا ہے کہ شہر سے یہ ہورڈنگ بورڈ فوراً ہٹائے جائیں اور اس تعلق سے شہری انتظامیہ 16 مارچ کو ایک حلف نامہ داخل کرے۔
قابل ذکر ہے کہ جن لوگوں کے فوٹو لگائے گئے ہیں، اُن میں سابق آئی پی ایس، ایس آر دارا پوری، شیعہ چاند کمیٹی کے صدر مولانا سیف عباس، کانگریسی رہنما صدف ظفر، سماجی کارکن دیپک مشرا کے علاوہ 53 دیگر لوگ اس فہرست میں شامل ہیں۔
ان سبھی لوگوں کو ایک کروڑ 55 لاکھ روپے وصولی کا نوٹس بھیجا گیا ہے اور الہ آباد ہائی کورٹ نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔
کورٹ نے اپنے فرمان میں کہا کہ پوسٹر میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ کس قانون کے تحت ایسا کیا گیا ہے؟ کورٹ کا ماننا ہے کہ پبلک پلیس پر اس طرح کے پوسٹر لگانا بنا اجازت کے غلط ہے۔ یہ رائٹ ٹو پرائیویسی کی خلاف ورزی کرتا ہے۔