اٹاوہ: سماج وادی پارٹی کے جنرل سکریٹری پروفیسر رام گوپال یادو نے اترپردیش کے پریاگ راج میں پولیس حراست میں مارے گئے عتیق اور اشرف کے قتل کو منظم سازش قرار دیا ہے۔ یہاں سیفئی میں میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے پروفیسر یادو نے آج کہا کہ پولیس کے ہاتھ میں عتیق اور ان کے بھائی اشرف کی ہتھکڑی تھی۔ یہ منظم قتل کیا گیا ہے۔ جانچ کرنے والی ایجنسی صحیح ہوگی تو بڑے بڑے لوگ اس میں پھنسیں گے۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی ایوان میں بولے تھے کہ مٹی میں ملا دیں گے اس لئے عتیق کو مارنے والے لوگوں کا کچھ ہونے والا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو کچھ اترپردیش میں ہورہا ہے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا ہے۔ جمہوریت کے خاتمے والا راستہ ہے۔ پہلے راج شاہی میں ایسا ہوتا تھا۔ میڈیا ٹرائل کی وجہ سے عتیق کو مارا گیا۔ کسی بھی کیس میں عتیق پر الزامات ثابت نہیں ہوئے تھے۔ ایسے لوگ بھی بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہیں جنہوں نے بم پھینک کر لوگوں کو مروایا تھا۔ ان کو کوئی کچھ نہیں کہتا ہے کہ گینگسٹر ہیں۔ پروفیسر یادو نے کہا کہ الہ آباد کے لوگوں کا کہنا ہے کہ عتیق کے پانچ بچے ہیں۔ اس میں ایک کو پولیس مار چکی ہے۔ جو بقیہ بچے ہیں ان کو بھی کسی نہ کسی بہانے سے مار دیا جائے گا۔ چاہے ملک برباد ہوجائے الیکشن جیتنے کے لئے لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ ایس پی جنرل سکریٹری نے کہا کہ انہوں نے پہلے بھی کہا تھا کہ عتیق کے لڑکے کا قتل ہوسکتا ہے۔ یہ بات سچ نکلی۔ اس کا فرضی انکاونٹر کردیا گیا۔عتیق نے سپریم کورٹ میں خود رٹ کی تھی کہ مجھے سیکورٹی دی جائے۔ جمہوریت کی تاریخ میں کسی بھی ملک میں پولیس حراست میں اس طرح کا قتل نہیں ہوا۔ یہ جمہوریت کا قتل ہے۔
یادو نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ رات میں 10بجے کون سا میڈیکل ہوتا ہے۔ یہ سب پہلے کی منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ انہوں نے عتیق احمد کے کنبے کو لے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جس طرح سے عتیق احمد اور اشرف کا قتل ہوا ہے۔ اسی طرح کنبے کے دیگر اراکین پر بھی حملے ہوسکتے ہیں۔
ایس پی لیڈر نے کہا کہ جمہوریت میں ایسا واقعہ کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ کوئی بھی ایمانداری سے سوچنے والا شخص اس واقعہ کو غلط کہے گا۔ اسے غلط مانے گا۔ یوگی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کا نتیجہ انہیں بھگتنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ جمہوریت کے خاتمے کی طرف لے جانے والا ہے اور راج شاہی میں ہی ایسا ہوتا تھا جہاں راجا ہی سب کچھ ہوتا تھا۔ اب ملک اسی طرف جارہا ہے۔ میڈیا ٹرائل کی وجہ سے عتیق کو مارا گیا ہے۔ عتیق کو تو صرف ایک کیس میں ہی سز اہوئی تھی۔ لیکن میڈیا نے عتیق کو مافیا بنادیا تھا۔ عتیق احمد 1989،1991،1993،1995،2002 میں ایم ایل اے اور 14ویں لوک سبھا میں پھول پور سے ایم پی منتخب ہوئے تھے۔ ایسا تو تھا نہیں کہ سبھی غنڈے بدمعاش الیکشن جیت جاتے ہیں۔عتیق ریکارڈ تین بار آزاد امیدوار کی حثیت سے ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔
یو این آئی