ETV Bharat / state

Melting Of Glaciers in j&k: جموں و کشمیر میں ماحولیاتی تبدیلی گلیشئرز کے نزدیک آبادیوں کیلئے پرخطر

author img

By

Published : Jun 7, 2022, 8:59 PM IST

Updated : Jun 8, 2022, 2:03 PM IST

ماہر ارضیات ڈاکٹر عرفان رشید کا کہنا ہے کہ ہندو کش، قراقرم ، ہمالیہ اور تیبیتین پلیٹو میں سب سے زیادہ گلیشئرز موجود ہیں،تاہم ان علاقوں میں گلیشئرز پگھل رہے ہیں جو آبادی کے لیے خطر ناک ثابت ہوسکتے ہیں۔۔Melting Of Glaciers in j&k

جموں و کشمیر میں گلیشئر
جموں و کشمیر میں گلیشئر

سرینگر: جموں و کشمیر میں گلیشئر جھیلوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس سے ان گلیشئرز کے نیچے آنے والی آبادی کو خطرہ لاحق ہے۔سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ (سی ایس ای) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2009 سے لے کر اب تک بھارت، چین اور نیپال میں پچیس گلیشئر جھیلوں اور آبی ذخائر میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو کہ ایک سنگین خطرہ ہے۔ ان گلیشئرز سے جموں و کشمیر، لداخ، آسام، اروناچل پردیش، سکم، بہار اور ہماچل پردیش کو خطرہ لاحق ہے۔Glaciers Melting Impact

جموں و کشمیر میں 333 گلیشئریز جھیلیں میں سے 65 جھیلیں خطرناک


سینیئر اسسٹنٹ پروفیسر کوآرڈینیٹر شعبہ جیو انفارمیٹکس کشمیر یونیورسٹی ڈاکٹر عرفان رشید نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہہ ہندو کش، قراقرم ، ہمالیہ اور تیبیتین پلیٹو جس کو تیسرے قطب کے علاقے بھی کہا جاتا ہے ،میں تقریباً 18 ہزار گلیشئر،جھیلیں موجود ہیں۔Dr Irfan Rashid Assistant Professor Dept of Geo informatics Kashmir University

اُن کا کہنا تھا کہ "قابل اعتماد سیٹلائٹ ڈیٹا پر مبنی مشاہدات سے اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ نئے گلیشئر جھیلوں کی تشکیل اور خطے میں پہلے سے موجود جھیلوں کی توسیع ہوئی ہے۔ گلیشیئر ماڈلنگ کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان گلیشئرز کے بننے سے ان کے آس پاس والی آبادی اور بنیادی ڈھانچے کے لیے خطرہ بڑھ گیا۔"Glacier Lakes Formed in J&K

ڈاکٹر عرفان نے بتایا کہ گلیشیئرز میں ایک سنوٹ ہوتی ہے جس سے پانی نکلتا ہے اور ان پانی کی شکلوں میں ڈالتا ہے جسے پرو گلیشیئل لیکس کہتے ہیں۔ ان جھیلوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پانی کے حجم میں اضافہ ہوتا رہے گا کیونکہ جھیلیں اب بھی بن رہی ہیں۔

اُنہوں نے تفصیلات میں کہا کہ "جموں و کشمیر میں 333 گلیشئر جھیلوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں سے تقریباً 65 گلیشئر ممکنہ طور پر خطرناک ہیں۔اسی طرح بھارتی ہمالیہ میں ممکنہ طور پر خطرناک جھیلوں کے طور پر درجہ بندی کی گئی۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ"بننے والی گلیشئر جھیلیں تین وجوہات کی وجہ سے پھٹ سکتی ہیں۔ ان میں موجود تلچھٹ اور پتھروں کی برداشت کی گنجائش کم ہے جو جھیل کے پھٹنے کا باعث بن سکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جھیلیں توسیع کے مراحل میں ہیں، چونکہ ہم زلزلہ زدہ زون پانچ میں ہیں اس لیے اس کے پھٹنے کے زیادہ امکانات ہیں۔"


انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بادل پھٹنے جیسی شدید بارش بھی گلیشئر جھیل کے پھٹنے کا باعث بن سکتی ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ "جموں و کشمیر اور لداخ میں حالیہ برسوں میں بادل پھٹنے کے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے یہ جھیلوں کے آس پاس کے دیہاتوں یا سیاحتی انفراسٹرکچر کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔"


ڈاکٹر عرفان نے بدلتی ہوئی آب و ہوا کی روشنی میں وضاحت کی کہ وہ گلیشیئرز کو پگھلنے سے نہیں روک سکتے۔اُن کا کہنا تھا کہ "گلیشئر جھیلوں کی توسیع اس صدی کے آخر تک جاری رہے گی اور اس سے گلیشئر جھیلوں کے پھٹنے کی تعداد میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم ماحول دوست اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی سازوں کو ہمالیائی علاقہ میں غیر روایتی ذرائع بشمول شمسی توانائی سے چلنے والی یا سی این جی گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینا ہوگا۔"

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی طور پر نازک علاقوں میں سیاحوں کی آمدورفت کو سائنسی طور پر لے جانے کی صلاحیت کا اندازہ لگا کر ہموار کیا جا سکتا ہے۔ توانائی کی ضروریات کو ایندھن کے بجائے متبادل ذرائع سے پورا کرنا ہوگاـ"

سرینگر: جموں و کشمیر میں گلیشئر جھیلوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، جس سے ان گلیشئرز کے نیچے آنے والی آبادی کو خطرہ لاحق ہے۔سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ (سی ایس ای) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2009 سے لے کر اب تک بھارت، چین اور نیپال میں پچیس گلیشئر جھیلوں اور آبی ذخائر میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو کہ ایک سنگین خطرہ ہے۔ ان گلیشئرز سے جموں و کشمیر، لداخ، آسام، اروناچل پردیش، سکم، بہار اور ہماچل پردیش کو خطرہ لاحق ہے۔Glaciers Melting Impact

جموں و کشمیر میں 333 گلیشئریز جھیلیں میں سے 65 جھیلیں خطرناک


سینیئر اسسٹنٹ پروفیسر کوآرڈینیٹر شعبہ جیو انفارمیٹکس کشمیر یونیورسٹی ڈاکٹر عرفان رشید نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہہ ہندو کش، قراقرم ، ہمالیہ اور تیبیتین پلیٹو جس کو تیسرے قطب کے علاقے بھی کہا جاتا ہے ،میں تقریباً 18 ہزار گلیشئر،جھیلیں موجود ہیں۔Dr Irfan Rashid Assistant Professor Dept of Geo informatics Kashmir University

اُن کا کہنا تھا کہ "قابل اعتماد سیٹلائٹ ڈیٹا پر مبنی مشاہدات سے اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ نئے گلیشئر جھیلوں کی تشکیل اور خطے میں پہلے سے موجود جھیلوں کی توسیع ہوئی ہے۔ گلیشیئر ماڈلنگ کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان گلیشئرز کے بننے سے ان کے آس پاس والی آبادی اور بنیادی ڈھانچے کے لیے خطرہ بڑھ گیا۔"Glacier Lakes Formed in J&K

ڈاکٹر عرفان نے بتایا کہ گلیشیئرز میں ایک سنوٹ ہوتی ہے جس سے پانی نکلتا ہے اور ان پانی کی شکلوں میں ڈالتا ہے جسے پرو گلیشیئل لیکس کہتے ہیں۔ ان جھیلوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پانی کے حجم میں اضافہ ہوتا رہے گا کیونکہ جھیلیں اب بھی بن رہی ہیں۔

اُنہوں نے تفصیلات میں کہا کہ "جموں و کشمیر میں 333 گلیشئر جھیلوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں سے تقریباً 65 گلیشئر ممکنہ طور پر خطرناک ہیں۔اسی طرح بھارتی ہمالیہ میں ممکنہ طور پر خطرناک جھیلوں کے طور پر درجہ بندی کی گئی۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ"بننے والی گلیشئر جھیلیں تین وجوہات کی وجہ سے پھٹ سکتی ہیں۔ ان میں موجود تلچھٹ اور پتھروں کی برداشت کی گنجائش کم ہے جو جھیل کے پھٹنے کا باعث بن سکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جھیلیں توسیع کے مراحل میں ہیں، چونکہ ہم زلزلہ زدہ زون پانچ میں ہیں اس لیے اس کے پھٹنے کے زیادہ امکانات ہیں۔"


انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بادل پھٹنے جیسی شدید بارش بھی گلیشئر جھیل کے پھٹنے کا باعث بن سکتی ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ "جموں و کشمیر اور لداخ میں حالیہ برسوں میں بادل پھٹنے کے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے یہ جھیلوں کے آس پاس کے دیہاتوں یا سیاحتی انفراسٹرکچر کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔"


ڈاکٹر عرفان نے بدلتی ہوئی آب و ہوا کی روشنی میں وضاحت کی کہ وہ گلیشیئرز کو پگھلنے سے نہیں روک سکتے۔اُن کا کہنا تھا کہ "گلیشئر جھیلوں کی توسیع اس صدی کے آخر تک جاری رہے گی اور اس سے گلیشئر جھیلوں کے پھٹنے کی تعداد میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم ماحول دوست اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی سازوں کو ہمالیائی علاقہ میں غیر روایتی ذرائع بشمول شمسی توانائی سے چلنے والی یا سی این جی گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینا ہوگا۔"

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی طور پر نازک علاقوں میں سیاحوں کی آمدورفت کو سائنسی طور پر لے جانے کی صلاحیت کا اندازہ لگا کر ہموار کیا جا سکتا ہے۔ توانائی کی ضروریات کو ایندھن کے بجائے متبادل ذرائع سے پورا کرنا ہوگاـ"

Last Updated : Jun 8, 2022, 2:03 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.