قریب 25 ارکان پر مشتمل غیر ملکی سفارتکاروں کا ایک وفد جموں و کشمیر کے دو روزہ دورے پر ہے۔ یہ وفد بدھ کو وادی کشمیر پہنچا جبکہ جمعرات کو جموں روانہ ہوگا۔ وفد کے اراکین یہاں کے حالات کا جائزہ لینے کے علاوہ کئی وفود سے بھی ملاقات کریں گے۔
جموں و کشمیر میں مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ علیحدگی پسند تنظیموں نے بھی سفارتکاروں کے دورے پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
ڈیڑھ برس سے بھی زیادہ عرصے سے محبوس علیحدگی پسند رہنما میرواعظ عمر فاروق نے وادی کے دورے پر آئے بیرونی سفارتکاروں سے اپیل کی ہے کہ وہ 'مسئلہ کشمیر پر بھارت و پاکستان اور کشمیری عوام کے مابین بات چیت کا آغاز کرنے کی سفارش کریں۔'
میر واعظ نے مذکورہ وفد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 'وہ پر امن طریقے سے دیرینہ مسئلہ کشمیر کو حل کریں تاکہ لوگوں کی مصیبتیں دو ہو سکیں۔'
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ 'ان کی پارٹی کو اس وفد کے دورے سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہے لہذا وہ اس پر کوئی ردعمل نہیں دیں گے۔'
مزید پڑھیں: غیرملکی سفارتکاروں کا وفد جموں و کشمیر کے دورے پر
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے اس کے ردعمل میں کہا کہ 'وفد آتے جاتے رہتے ہیں لیکن کشمیر کے حالات جوں کے توں ہیں۔'
محبوبہ مفتی نے شمالی کشمیر کے قصبہ ہندوارہ کے دورے کے دوران کہا کہ 'کشمیر کے حالات صحیح نہیں ہیں، اسی وجہ سے یہاں کے لیڈران ابھی بھی قید یا نظر بند ہیں۔'
قابل ذکر ہے کہ سفارتکاروں کے وادی کشمیر کے دورے کے پیش نظر بدھ کو دارالحکومت سرینگر میں غیر اعلانیہ ہڑتال کی وجہ سے معمول کی زندگی متاثر رہی۔ لال چوک سمیت پائین شہر کے بیشتر بازاروں میں دکانیں بند رہیں۔ تاہم نجی و پبلک گاڑیوں کی کچھ حد تک نقل و حمل جاری رہیں۔
مزید پڑھیں؛ غیر ملکی سفارتکاروں کا دورہ، سرینگر میں غیر اعلانیہ ہڑتال
سفارتکاروں کے جموں و کشمیر دورے سے چند روز قبل سرینگر میں چند مقامات پر سی آر پی ایف نے بنکر بھی ہٹا دئے تھے۔ تاہم سی آر پی ایف اہلکاروں کے مطابق بنکروں کو ہٹانا حفاظتی اقدامات کے پیش نظر ایک روٹین کام ہے۔ اس کا وفد کے دورۂ کشمیر سے کوئی تعلق نہیں۔
غور طلب ہے کہ مرکزی وزارت خارجہ کی جانب سے یہ دورہ اس وقت کیا جا رہا ہے جب مرکزی حکومت نے چند ماہ قبل یہاں پہلی مرتبہ ضلع ترقیاتی انتخابات منعقد کروائے اور مین اسٹریم سیاسی سرگرمیاں بھی بحال ہونے دیں، وہیں چند روز قبل ہی تیز رفتار انٹرنیٹ (4G) پر 550 دنوں سے زیادہ عرصے کے بعد پابندی ہٹا دی گئی۔