ETV Bharat / state

سیف الدین سوز کی نظربندی، عدالت عظمیٰ کا جموں و کشمیر انتظامیہ سے جواب طلب

سیف الدین سوز کی اہلیہ کی جانب سے دائر کی گئی عرضی پر سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے جموں و کشمیر کی انتظامیہ سے اس حوالے سے دو ہفتوں کے اندر جواب طلب کیا ہے۔

سیف الدین سوز کی نظربندی، عدالت عظمیٰ کا جموں و کشمیر انتظامیہ سے جواب طلب
سیف الدین سوز کی نظربندی، عدالت عظمیٰ کا جموں و کشمیر انتظامیہ سے جواب طلب
author img

By

Published : Jun 8, 2020, 4:26 PM IST

عدالت عظمیٰ نے پیر کو سینئر کانگریس لیڈر سیف الدین سوز کی اہلیہ کی جانب سے اپنے شوہر کی نظر بندی کے خلاف دائر کی گئی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جموں و کشمیر انتظامیہ کو اس حوالے سے اپنا جواب عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لئے دو ہفتوں کی مہلت دی ہے۔

سماعت مکمل ہونے کے بعد سینئر کانگریس لیڈر سیف الدین سوز نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’میری عمر 80 سال ہے اور میں گزشتہ دس مہینوں سے اپنے ہی گھر میں نظربند ہوں۔ مجھے نظر بند رکھنے کا فیصلہ زبانی طور پر بتایا گیا تھا تاہم کوئی دستاویز فراہم نہیں کیا گیا۔ میں نے انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں سے بھی رجوع کیا تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ مجبوراً بیگم صاحبہ کو عدالت عظمیٰ کا رخ کرنا پڑا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ انہوں نے مجھے کس جرم میں نظر بند رکھا ہوا ہے۔ میں ہندوستان کے آئین پر سختی سے عمل کرتا ہوں۔ ہاں مرکزی سرکار کی نکتہ چینی ضرور کرتا ہوں کیونکہ اس کا حق مجھے آئین ہند نے ہی دیا ہے۔ کشمیری ہوں اور کشمیری عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ یہ اپنے جواب میں عدالت میں کیا ثابت کر سکتے ہیں؟‘‘

تفصیلات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’جب مجھے گھر سے باہر نکلنے سے روکا گیا تو میں نے وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ آپ کو گھر میں نظر بند کرنے کے احکامات جاری ہوئے ہیں اسی لئے آپ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔ میں نے جب حکم نامے کی کاپی طلب کی تو حفاظتی اہلکار نے کہا کی احکامات کی کاپی میں آپ کو فراہم نہیں کرسکتا مجھے جو بولا گیا ہے اور میں وہی کر رہا ہوں۔‘‘

سوز کا کہنا تھا کہ ’’میں اپنی بیٹی کی خبر خیرت پوچھنے کے لئے جا رہا تھا لیکن مجھے جانے نہیں دیا گیا اور تب سے میں نظر بند ہوں۔ اس کے بعد میں نے اپنے ساتھی پی چدمبرم اور ابھیشیک منو سنگھوی سے رابطہ کیا۔ وہ میرے لئے کافی فکر مند تھے اور وہی میرے حق کے لیے عدالت عظمیٰ گئے۔ جو میرے ساتھ ہوا وہ پورے کشمیر کے ساتھ ہوا ہے آپ دیکھو پورا کشمیر جیل میں ہے۔ وادی کشمیر ایک بڑا جیل بنا ہوا ہے اس وقت۔‘‘

واضح رہے کہ سوز گزشتہ برس پانچ اگست سے اپنے گھر میں ہی نظر بند ہیں اور ان کی اہلیہ نے گزشتہ مہینے کی 29 تاریخ کو اس تعلق سے عدالت عظمیٰ کا رخ کیا تھا۔

سیف الدین سوز کانگریس کے سینئر لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت کے مرکزی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ سوز کے سیاسی کیریئر کا سب سے اہم پڑاؤ سن 1999 میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کو گرانا مانا جاتا ہے۔ وہ تب نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان تھے اور اپنی پارٹی کے خلاف جاکر واجپائی حکومت کو گرانے میں اہم کردار نبھایا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے پیر کو سینئر کانگریس لیڈر سیف الدین سوز کی اہلیہ کی جانب سے اپنے شوہر کی نظر بندی کے خلاف دائر کی گئی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جموں و کشمیر انتظامیہ کو اس حوالے سے اپنا جواب عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لئے دو ہفتوں کی مہلت دی ہے۔

سماعت مکمل ہونے کے بعد سینئر کانگریس لیڈر سیف الدین سوز نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’میری عمر 80 سال ہے اور میں گزشتہ دس مہینوں سے اپنے ہی گھر میں نظربند ہوں۔ مجھے نظر بند رکھنے کا فیصلہ زبانی طور پر بتایا گیا تھا تاہم کوئی دستاویز فراہم نہیں کیا گیا۔ میں نے انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں سے بھی رجوع کیا تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ مجبوراً بیگم صاحبہ کو عدالت عظمیٰ کا رخ کرنا پڑا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ انہوں نے مجھے کس جرم میں نظر بند رکھا ہوا ہے۔ میں ہندوستان کے آئین پر سختی سے عمل کرتا ہوں۔ ہاں مرکزی سرکار کی نکتہ چینی ضرور کرتا ہوں کیونکہ اس کا حق مجھے آئین ہند نے ہی دیا ہے۔ کشمیری ہوں اور کشمیری عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ یہ اپنے جواب میں عدالت میں کیا ثابت کر سکتے ہیں؟‘‘

تفصیلات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’جب مجھے گھر سے باہر نکلنے سے روکا گیا تو میں نے وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ آپ کو گھر میں نظر بند کرنے کے احکامات جاری ہوئے ہیں اسی لئے آپ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔ میں نے جب حکم نامے کی کاپی طلب کی تو حفاظتی اہلکار نے کہا کی احکامات کی کاپی میں آپ کو فراہم نہیں کرسکتا مجھے جو بولا گیا ہے اور میں وہی کر رہا ہوں۔‘‘

سوز کا کہنا تھا کہ ’’میں اپنی بیٹی کی خبر خیرت پوچھنے کے لئے جا رہا تھا لیکن مجھے جانے نہیں دیا گیا اور تب سے میں نظر بند ہوں۔ اس کے بعد میں نے اپنے ساتھی پی چدمبرم اور ابھیشیک منو سنگھوی سے رابطہ کیا۔ وہ میرے لئے کافی فکر مند تھے اور وہی میرے حق کے لیے عدالت عظمیٰ گئے۔ جو میرے ساتھ ہوا وہ پورے کشمیر کے ساتھ ہوا ہے آپ دیکھو پورا کشمیر جیل میں ہے۔ وادی کشمیر ایک بڑا جیل بنا ہوا ہے اس وقت۔‘‘

واضح رہے کہ سوز گزشتہ برس پانچ اگست سے اپنے گھر میں ہی نظر بند ہیں اور ان کی اہلیہ نے گزشتہ مہینے کی 29 تاریخ کو اس تعلق سے عدالت عظمیٰ کا رخ کیا تھا۔

سیف الدین سوز کانگریس کے سینئر لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت کے مرکزی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ سوز کے سیاسی کیریئر کا سب سے اہم پڑاؤ سن 1999 میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت کو گرانا مانا جاتا ہے۔ وہ تب نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان تھے اور اپنی پارٹی کے خلاف جاکر واجپائی حکومت کو گرانے میں اہم کردار نبھایا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.