پلوامہ کے رہنے والے یاسر شوکت اخروٹ و بادام کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور وہ اخروٹ خرید کر اسے ملک کی دیگر ریاستوں میں فروخت کے لیے جاتے ہے۔ اس کاروبار سے وہ پہلے پچاس افراد کو روزگار فرہم کراتے تھے تاہم گذشتہ اور رواں برس کے لاک ڈاؤن سے انہیں کافی نقصان پہنچا ہے۔ اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے اب صرف پانچ سے چھ افراد ہی ان کے اس کام جڑے ہیں جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کے روزگار پر برا اثر مرتب ہو رہا ہے۔
وادی کشمیر میں بڑے پیمانہ پر مختلف اقسام کے میووں کی پیداوار ہوتی ہے، ان میوہ جات میں سیب، بادام، اخروٹ وغیرہ شامل ہیں، جو وادی کے ساتھ ساتھ ملک کی دیگر ریاستوں میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ میوہ کی صنعت سے وادی کے ساتھ ساتھ ملک کی دیگر ریاستوں کے افراد اپنا روزگار کماتے ہیں۔وہیں اس میوہ صنعت کو جموں و کشمیر کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی ماند تصور کیا جاتا ہے۔
جہاں ایک طرف لاکھوں لوگ اس روزگارسے جڑے ہیں، وہیں دوسری جانب یہ وادی کشمیر کے لوگوں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بھی اس سے وابستہ ہے۔وادی کشمیر میں پچھلے کئی برسوں سے نامساعد حالات کے سبب اس صنعت سے جڑے افراد کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس حوالے سے میوہ کاروباری یاسر شوکت نے ای ٹی و ی بھارت سے کہا کہ 'وادی میں روزگار کی کمی نہیں ہے بشرطیکہ کہ نوجوان حوصلہ رکھ کر کام شروع کریں۔انہوں نے کہا کہ 'میری ایک چھوٹی کوشش کی وجہ سے پچاس افراد کو روزگار مل رہا تھا میں اس سے کافی خوش تھا لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کے روزگار پر بہت برا اثر پڑا ہے۔