بی جے پی رہنما و قانون ساز سبرامنیم نے شہریت ترمیمی بل پر شیوسینا کے بائیکاٹ پر کہا ہے کہ' اددھو ٹھاکرے کی پارٹی اپنے ہندوتوا نظریات سے سمجھوتہ نہیں کرسکتی اس لیے شیوسینا کو دوبارہ سے بی جے پی کی قیادت والے قومی جمہوری اتحاد(این ڈی اے) میں شامل کیا جائے۔
سوامی کا یہ بھی کہنا ہے کہ مہاراشٹر کی اس پارٹی کو ریاست میں ڈھائی برس کے لیے وزیراعلی کا عہدہ دیا جانا چاہیے، یہ اچھا رہا کہ شیریت ترمیمی بل پر شیوسینا اپنے ہندوتوا نظریے پر قائم رہی۔
سبرامنیم سوامی نے بدھ کے روز ٹویٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ شیوسینا کو واپس لانے کے لیے بات چیت شروع کی جائے، انھیں ڈھائی برس کے لیے وزیراعلی کا عہدہ مل سکتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز راجیہ سبھا میں ایک طویل بحث کے بعد شہریت ترمیمی بل کو منظور کرلیا گیا۔ اس بل کی 125 راجیہ سبھا اراکین نے ووٹ کیا اور مخالفت میں 105 ووٹ پڑے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ لوک سبھا میں اس بل کی حمایت کرنے والی شیوسینا نے راجیہ سبھا میں اس بل کا بائیکاٹ کیا۔
اس تعلق سے شیوسینا سے راجیہ سبھا کے رکن سنجے راوت نے صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کے سبب انھوں نے اس بل پر ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔
حالانکہ منگل کے روز شیوسینا صدر اور مہاراشٹر کے وزیراعلی اددھو ٹھاکرے نے یوٹرن لیتے ہوئے کہا تھا کہ' جب تک اس بل کا موقف واضح نہیں ہوجاتا تب تک وہ اس بل کے حق میں نہیں ہیں۔
Intro:Body:
جب بیسویں صدی کے اوائل میں علامہ اقبال ؒ کو ملک گیر شہرت حاصل ہوئی، تو وہ بیشتر رہنماؤں کے مانند عوام سے کٹ نہیں گئے بلکہ ان کے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے۔ ہر مذہب، قوم اور طبقے کا فرد شاعر مشرق کی محفل میں آ سکتا تھا۔
علامہ صاحب کے گھر وہ فقید المثال مجلس سجتی تھی جہاں لوگ بیٹھ کر ادب، سیاست، فنون لطیفہ، معاشرت، تہذیب غرض ہر موضوع پہ باتیں کرتے اور فکری رہنمائی پاتے۔ انہی محفلوں کے ذریعے دو ایسے ہندو نوجوانوں کو بھی رہنمائی ملی جنھوں نے آگے چل کر خوب نام کمایا اور علم وادب کے میدان میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے۔
ہندوستان کے جن ادبا نے انگریزی میں ناول و افسانے لکھے، ان میں ملک راج آنند نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ آنند صاحب 12 دسمبر 1905ء کو پشاور کے ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد تانبے کی مختلف اشیاء بناتے تھے۔ پھر فوج میں شامل ہوکر صوبے دار بن گئے۔
ملک راج آنند کو لڑکپن میں مذہبی انتہا پسندی کے تلخ تجربے سے گزرنا پڑا۔ایک دن ان کی پھوپھی، دیوکا نے اپنی کسی مسلمان سہیلی کے گھر کھانا کھالیا۔ جب خاندان والوں کو اس بات کا پتا چلا، تو گویا قیامت آ گئی۔ انہوں نے دیوکا کو جھڑکیاں ہی نہیں دیں بلکہ بیچاری عورت کا معاشرتی مقاطع کرڈالا۔ صورت حال سے دیوکا اتنی دلبرداشتہ ہوئی کہ اس نے خودکشی کرلی۔
اس اندوہناک واقعے نے پروان چڑھتے حساس لڑکے پر بہت اثر کیا۔ وہ ذات پات کے ہندو نظام اور فرسودہ مذہبی روایات و رسوم سے نفرت کرنے لگے۔ ملک راج آنند نے آگے چل کر اپنے ناولوں میں لکھا ’’ہندوستانی ذہین اور بہادر لوگ ہیں۔ ان میں آگے بڑھنے کی بڑی صلاحیت ہے۔ لیکن انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو دقیانوسی عقائد اور غیر مقصدی تحریکوں کے ذریعے خواہ مخواہ زنگ آلود کردیا۔‘‘
راج آنند 1921ء تا 1924ء امرتسر کے خالصہ کالج میں زیر تعلیم رہے۔ اس دوران انہیں اردو شاعری سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔ حتی کہ وہ اردو نظمیں کہنے لگے۔ ان دنوں شاعر مشرق، علامہ اقبالؒؒ کی شاعری کا چرچا چہار دانگ عالم میں پھیل چکا تھا۔ چناں چہ ملک راج آنند لاہور جاکر علامہ اقبالؒ سے ملاقاتیں کرنے لگے تاکہ شاعری میں رہنمائی پا سکیں۔ اس دوران ادبی و فلسفیانہ موضوعات بھی زیر بحث آتے۔
علامہ اقبالؒ کی قربت ہی کا نتیجہ ہے کہ ملک راج آنند فلسفے میں ازحد دلچسپی لینے لگے۔ جب انہوں نے بی اے کرلیا، تو وہ یہ مشورہ کرنے شاعر مشرق کے پاس پہنچے کہ اب آگے کس قسم کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی جائے۔ملک راج آنند اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں: ’’میں نے ان سے کہا، میں آپ کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہوں۔‘‘
وہ بولے ’’میرے نقش قدم پر چلے، تو تم میونخ (جرمنی) پہنچ جاؤ گے۔ لیکن تم تو جرمن زبان نہیں جانتے۔ پھر شاید تمہارے پاس اتنی رقم بھی نہیں کہ وہاں جا سکو۔ بہرحال تم ایسا کرو کہ لندن چلے جاؤ۔ میں اس سلسلے میں کچھ کرتا ہوں۔‘‘
علامہ اقبالؒ نے پھر لندن میں اپنے دوستوں کو خطوط لکھے۔ آخر شاعر مشرق کی کوششوں سے یونیورسٹی کالج، لندن میں ملک راج آنند کا داخلہ ہوگیا۔ زادِ راہ کے طور پر علامہ اقبالؒ نے نوجوان راج کو 500 روپے دیئے جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔ یوں ان کی سعی مسلسل سے ایک ہندو نوجوان کے کیریئر کا شاندار آغاز ہوا۔
برطانیہ میں ملک راج آنند نے کچھ عرصہ یونیورسٹی کالج میں تعلیم پائی۔ پھر وہ کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے اور وہاں سے 1929ء میں فلسفے میں پی ایچ ڈی کیا۔ بعدازاں وہ انگریزی میں ناول لکھنے لگے۔ ان کی ادبی تخلیقات نے بین الاقوامی شہرت پائی۔
ملک راج آنند نے اپنی کتابوں اور ناولوں میں ہندوستان کے پس ماندہ طبقوں خصوصاً اچھوتوں کو درپیش مسائل کا تذکرہ کیا۔ ان کا پہلا ناول ’’اچھوت‘‘ تھا جو 1935ء میں شائع ہوا۔ یہ لیٹرینیں صاف کرنے والے ایک چمار، باکھا کی حوصلہ افزا داستان ہے جو نظام سے بغاوت کرنا چاہتا تھا۔
علامہ اقبالؒ ہی نے ایک اور مشہور ہندو ادیب، دیوندر ستیارتھی کو بھی فکری راہنمائی دی ۔ ستیارتھی اپنی زندگی سے بیزار تھے، حتیٰ کہ خودکشی کرنے کی طرف مائل ہوگئے۔ تبھی ان کے دوست انہیں علامہ اقبال کی خدمت میں لے گئے۔ یہ 1926ء کا واقعہ ہے۔ شاعر مشرق نے پھر اپنی حوصلہ افزا باتوں سے دل شکستہ ہندو نوجوان کی ہمت بندھائی۔ خاص طور پر اسے یہ باور کرایا کہ وہ زندگی گزارنے کا کوئی مقصد ڈھونڈے۔ یہ نصیحت نوجوان ہندو کے رگ و پے میں سما گئی۔
دیوندر ستیارتھی نے پھر ہندوستان کے تمام لوک گیت جمع کرنا مقصد زندگی بنالیا۔ وہ پھر آوارہ گرد کی طرح پورے ہندوستان میں گھومے اور ہزارہا لوک گیت و روایات جمع کیں۔ انہوں نے اپنے مخصوص موضوع پر 50 سے زائد کتب اور سیکڑوں مضامین لکھے۔ آج بھارت میں لوک گیت کے موضوع پر انہیں اتھارٹی سمجھا جاتا ہے۔یہی نہیں، انھوں نے افسانے اور ڈرامے بھی لکھے اور اردو ادب میں اپنا نقش چھوڑ گئے۔
علامہ اقبالؒ سے فکری راہنمائی حاصل کرنے والے دونوں ہندو نوجوانوں نے طویل عمر پائی۔ ملک راج آنند 2004ء میں دنیا سے رخصت ہوئے اور اٹھانوے سال عمر پائی۔ 1908ء میں جنم لینے والے دیوندر ستیارتھی 2003ء میں چل بسے۔مگر ان کا کارنامے رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔
Conclusion: