آہستہ آہستہ وہ اندھیرے میں کھوتے جا رہے ہیں۔ جی ہاں، یہ طبقہ کمہار کا ہے جو قدیم زمانے سے مٹی کے ساز و سامان بناتے آ رہے ہیں۔ اسی فن کے کام سے کمہار اپنے لئے دو وقت کی روٹی کا نظم کرتا ہے۔ مگر اب بدلتے وقت میں چکاچوندھ کرنے والی چائنیز لائٹ کے سامنے مٹی کے دیئے کا رواز ختم ہوتا جا رہا ہے اور مدھم پڑتے اس لو میں کئی کمہار کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے۔
مٹی کے دیئے بنانے والے یہ کمہار ارریہ کے گاچھی ٹولہ باشندہ ہیں۔ یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے جسے یہ صدیوں سے کرتے آ رہے ہیں، اسی روزگار سے ان کا گھر چلتا ہے۔ ایک جانب قدیم زمانے کے دیئے ہیں تو دوسری جانب آنکھوں کو چوندھیا دینے والے بازار میں دستیاب قمقمے۔
عوام بھی مٹی کے دیئوں کے بجائے چائنیز لائٹ سے اپنے گھروں کو سجا سنوار رہے ہیں، جس کا اثر مٹی کے دیئوں پر ہوا ہے اور اس کے فروخت میں بے تحاشا کمی آئی ہے، جس سے کمہاروں کے گھر میں اندھیرا پسرا ہے۔
مٹی کے دیئے کے مانگ نہ ہونے سے ان کمہاروں کی لاگت بھی وصول نہیں ہو رہی ہے۔ جگمگاتی لائٹ نے ان کمہاروں کے روزگار بالکل ٹھپ کر دیے ہیں۔ دوسروں کے گھروں کو روشن کرنے والے کمہار آج خود ہی لاچاری اور مفلسی کے اندھیروں میں جینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
قدیم زمانے کی ختم ہوتی روایت پر نہ ہی عوام اور نہ حکومت کی کوئی توجہ ہے۔ حکومت کی جانب سے بھی ان کمہاروں کے روزگار کے لئے کوئی سبسیڈی نہیں دی جاتی، تو آخر اس مہنگائی کے دور میں ان کمہاروں کا گزارا کیسے ہو اس پر کس کی نظر جائیگی۔
حکومت کے عدم توجہی کے شکار ان کمہاروں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کام کو پوری طرح سے بند کر دیا جائے گا۔ خوشی کمار پنڈت کہتے ہیں کہ پہلے اس کام میں اچھا منافع تھا مگر اب لاگت سے زیادہ خرچ ہے، بس خاندانی پیشے کی وجہ سے لے کر چل رہے ہیں۔
مارکیٹ میں اس وقت چھوٹا دیا 100 روپیہ سینکڑا فروخت ہو رہا ہے جبکہ اس میں 70 سے 80 روپے کی لاگت ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک طرف جہاں کمہار اپنے اجداد کے قدیم نشانی کو بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں تو دوسری جانب عوام بالخصوص نئی نسل اس فن کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ جواب دیہی حکومت پر بھی ہے وہ اس فن کو بچانے اور بڑھاوا دینے کے لیے کوئی اہم منصوبہ کیوں نہیں بنا رہی ہے؟ آخر بے روشن ہوتے ان کمہاروں کے گھروں کو روشن کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے