ETV Bharat / state

مٹی کے چراغ بنانے والے کمہار مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور

author img

By

Published : Oct 26, 2019, 12:11 AM IST

Updated : Oct 26, 2019, 11:02 PM IST

دیوالی ایک مذہبی اور ہندو بھائیوں کے لے عقیدت کا تہوار ہے۔ اس تہوار میں لوگ اپنے گھروں کو روشن کرتے ہیں۔ مانا جاتا ہے بھگوان رام کے چودہ سال کے بنواس کے بعد ان کے استقبال میں گھروں میں مٹی کے چراغ روشن کر کے خوشی منائی گئی تھی مگر ان خوشیوں میں آج ایک ایسا طبقہ بھی ہے جس کے روزگار کا بنواس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔

مٹی کے دیئے بنانے والے کمہار مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور

آہستہ آہستہ وہ اندھیرے میں کھوتے جا رہے ہیں۔ جی ہاں، یہ طبقہ کمہار کا ہے جو قدیم زمانے سے مٹی کے ساز و سامان بناتے آ رہے ہیں۔ اسی فن کے کام سے کمہار اپنے لئے دو وقت کی روٹی کا نظم کرتا ہے۔ مگر اب بدلتے وقت میں چکاچوندھ کرنے والی چائنیز لائٹ کے سامنے مٹی کے دیئے کا رواز ختم ہوتا جا رہا ہے اور مدھم پڑتے اس لو میں کئی کمہار کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے۔

مٹی کے دیئے بنانے والے کمہار مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور

مٹی کے دیئے بنانے والے یہ کمہار ارریہ کے گاچھی ٹولہ باشندہ ہیں۔ یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے جسے یہ صدیوں سے کرتے آ رہے ہیں، اسی روزگار سے ان کا گھر چلتا ہے۔ ایک جانب قدیم زمانے کے دیئے ہیں تو دوسری جانب آنکھوں کو چوندھیا دینے والے بازار میں دستیاب قمقمے۔

عوام بھی مٹی کے دیئوں کے بجائے چائنیز لائٹ سے اپنے گھروں کو سجا سنوار رہے ہیں، جس کا اثر مٹی کے دیئوں پر ہوا ہے اور اس کے فروخت میں بے تحاشا کمی آئی ہے، جس سے کمہاروں کے گھر میں اندھیرا پسرا ہے۔

مٹی کے دیئے کے مانگ نہ ہونے سے ان کمہاروں کی لاگت بھی وصول نہیں ہو رہی ہے۔ جگمگاتی لائٹ نے ان کمہاروں کے روزگار بالکل ٹھپ کر دیے ہیں۔ دوسروں کے گھروں کو روشن کرنے والے کمہار آج خود ہی لاچاری اور مفلسی کے اندھیروں میں جینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

قدیم زمانے کی ختم ہوتی روایت پر نہ ہی عوام اور نہ حکومت کی کوئی توجہ ہے۔ حکومت کی جانب سے بھی ان کمہاروں کے روزگار کے لئے کوئی سبسیڈی نہیں دی جاتی، تو آخر اس مہنگائی کے دور میں ان کمہاروں کا گزارا کیسے ہو اس پر کس کی نظر جائیگی۔

حکومت کے عدم توجہی کے شکار ان کمہاروں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کام کو پوری طرح سے بند کر دیا جائے گا۔ خوشی کمار پنڈت کہتے ہیں کہ پہلے اس کام میں اچھا منافع تھا مگر اب لاگت سے زیادہ خرچ ہے، بس خاندانی پیشے کی وجہ سے لے کر چل رہے ہیں۔

مارکیٹ میں اس وقت چھوٹا دیا 100 روپیہ سینکڑا فروخت ہو رہا ہے جبکہ اس میں 70 سے 80 روپے کی لاگت ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایک طرف جہاں کمہار اپنے اجداد کے قدیم نشانی کو بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں تو دوسری جانب عوام بالخصوص نئی نسل اس فن کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ جواب دیہی حکومت پر بھی ہے وہ اس فن کو بچانے اور بڑھاوا دینے کے لیے کوئی اہم منصوبہ کیوں نہیں بنا رہی ہے؟ آخر بے روشن ہوتے ان کمہاروں کے گھروں کو روشن کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے

آہستہ آہستہ وہ اندھیرے میں کھوتے جا رہے ہیں۔ جی ہاں، یہ طبقہ کمہار کا ہے جو قدیم زمانے سے مٹی کے ساز و سامان بناتے آ رہے ہیں۔ اسی فن کے کام سے کمہار اپنے لئے دو وقت کی روٹی کا نظم کرتا ہے۔ مگر اب بدلتے وقت میں چکاچوندھ کرنے والی چائنیز لائٹ کے سامنے مٹی کے دیئے کا رواز ختم ہوتا جا رہا ہے اور مدھم پڑتے اس لو میں کئی کمہار کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے۔

مٹی کے دیئے بنانے والے کمہار مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور

مٹی کے دیئے بنانے والے یہ کمہار ارریہ کے گاچھی ٹولہ باشندہ ہیں۔ یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے جسے یہ صدیوں سے کرتے آ رہے ہیں، اسی روزگار سے ان کا گھر چلتا ہے۔ ایک جانب قدیم زمانے کے دیئے ہیں تو دوسری جانب آنکھوں کو چوندھیا دینے والے بازار میں دستیاب قمقمے۔

عوام بھی مٹی کے دیئوں کے بجائے چائنیز لائٹ سے اپنے گھروں کو سجا سنوار رہے ہیں، جس کا اثر مٹی کے دیئوں پر ہوا ہے اور اس کے فروخت میں بے تحاشا کمی آئی ہے، جس سے کمہاروں کے گھر میں اندھیرا پسرا ہے۔

مٹی کے دیئے کے مانگ نہ ہونے سے ان کمہاروں کی لاگت بھی وصول نہیں ہو رہی ہے۔ جگمگاتی لائٹ نے ان کمہاروں کے روزگار بالکل ٹھپ کر دیے ہیں۔ دوسروں کے گھروں کو روشن کرنے والے کمہار آج خود ہی لاچاری اور مفلسی کے اندھیروں میں جینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

قدیم زمانے کی ختم ہوتی روایت پر نہ ہی عوام اور نہ حکومت کی کوئی توجہ ہے۔ حکومت کی جانب سے بھی ان کمہاروں کے روزگار کے لئے کوئی سبسیڈی نہیں دی جاتی، تو آخر اس مہنگائی کے دور میں ان کمہاروں کا گزارا کیسے ہو اس پر کس کی نظر جائیگی۔

حکومت کے عدم توجہی کے شکار ان کمہاروں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کام کو پوری طرح سے بند کر دیا جائے گا۔ خوشی کمار پنڈت کہتے ہیں کہ پہلے اس کام میں اچھا منافع تھا مگر اب لاگت سے زیادہ خرچ ہے، بس خاندانی پیشے کی وجہ سے لے کر چل رہے ہیں۔

مارکیٹ میں اس وقت چھوٹا دیا 100 روپیہ سینکڑا فروخت ہو رہا ہے جبکہ اس میں 70 سے 80 روپے کی لاگت ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایک طرف جہاں کمہار اپنے اجداد کے قدیم نشانی کو بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں تو دوسری جانب عوام بالخصوص نئی نسل اس فن کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ جواب دیہی حکومت پر بھی ہے وہ اس فن کو بچانے اور بڑھاوا دینے کے لیے کوئی اہم منصوبہ کیوں نہیں بنا رہی ہے؟ آخر بے روشن ہوتے ان کمہاروں کے گھروں کو روشن کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے

Intro:مٹی کے دیئے بنانے والے کمہار مفلسی کی زندگی گزارنے پر ہیں مجبور

ارریہ : دیوالی ایک مذہبی اور ہندو بھائیوں کے لئے عقیدت کا تہوار ہے، اس تہوار میں لوگ اپنے گھروں کو روشن کرتے ہیں، مانا جاتا ہے بھگوان رام کے چودہ سال کے بنواس کے بعد ان کے استقبال میں گھروں میں مٹی کے دیئے روشن کر کے خوشی منائی گئی تھی. مگر ان خوشیوں میں آج ایک ایسا طبقہ بھی ہے جس کے روزگار کا بنواس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور آہستہ آہستہ وہ اندھیرے میں کھوتے جا رہے ہیں. جی ہاں...... یہ طبقہ کمہار کا ہے جو قدیم زمانے سے مٹی کے ساز و سامان بناتے آ رہے ہیں، اسی فن کے کام سے کمہار اپنے لئے دو وقت کی روٹی کا نظم کرتا ہے. مگر اب بدلتے وقت میں چکاچوندھ کرنے والی چائنیز لائٹ کے سامنے مٹی کے دیئے کا لو ختم ہوتا جا رہا ہے اور مدھم پڑتے اس لو میں کئی کمہار کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے.


Body:مٹی کے دیئے بنانے والے یہ کمہار ارریہ کے گاچھی ٹولہ باشندہ ہیں، یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے جسے یہ صدیوں سے کرتے آ رہے ہیں، اسی روزگار سے ان کا گھر چلتا ہے. ایک جانب قدیم زمانے کے دیئے ہیں تو دوسری جانب آنکھوں کو چوندھیا دینے والے بازار میں دستیاب قمقمے. عوام بھی مٹی کے دیئوں کے بجائے چئینز لائٹ سے اپنے گھروں کو سجا سنوار رہے ہیں جس کا اثر مٹی کے دیئوں پر ہوا ہے اور اس کے فروخت میں بے تحاشا کمی آئی ہے، جس سے کمہاروں کے گھر میں اندھیرا پسرا ہے، مٹی کے دیئے کے مانگ نہ ہونے سے ان کمہاروں کے لاگت بھی وصول نہیں ہو رہے ہیں. جگمگاتی لائٹ نے ان کمہاروں کے روزگار بالکل ٹھپ کر دیا ہے. دوسروں کے گھروں کو روشن کرنے والے کمہار آج خود ہی لاچاری اور مفلسی کے اندھیروں میں جینے پر مجبور ہے.


Conclusion:قدیم زمانے کی ختم ہوتی روایت پر نہ ہی عوام اور نہ حکومت کی کوئی توجہ ہے، حکومت کی جانب سے بھی ان کمہاروں کے روزگار کے لئے کوئی سبسڈی نہیں دی جاتی تو آخر اس مہنگائی کے دور میں ان کمہاروں کی کمر ٹوٹ رہی ہے، حکومت کے عدم توجہی کے شکار ان کمہاروں کا کہنا ہے آنے والے دنوں میں اس کام کو پوری طرح سے بند کر دیا جائے گا. کمہار خوشی کمار پنڈت کہتے ہیں پہلے اس کام میں اچھا منافع تھا مگر اب لاگت سے زیادہ خرچ ہے، بس خاندانی پیشے کی وجہ سے لے کر چل رہے ہیں. مارکیٹ میں اس وقت چھوٹا دیا 100 روپیہ سینکڑا فروخت ہو رہا ہے جبکہ اس میں 70 سے 80 روپے کا لاگت ہے.
سوال یہ ہے کہ ایک طرف جہاں کمہار اپنے اجداد کے قدیم نشانی کو بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں تو دوسری جانب عوام بالخصوص نئی نسل اس فن کا گلا گھونٹ رہی ہے، جوابدہی حکومت پر بھی ہے وہ اس فن کو بچانے اور بڑھاوا دینے کے لئے کوئی اہم منصوبہ کیوں نہیں بنا رہی ہے. آخر بے روشن ہوتے ان کمہاروں کے گھروں کو روشن کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے.......???

پی ٹو سی............ عارف اقبال
بائٹ.... خوشی لال پنڈت، کمہار (پہچان، بلو شرٹ پہنے ہوئے)
بائٹ.... اشوک کمار پنڈت ، کمہار (پہچان، نارنگی شرٹ پہنے ہوئے)
بائٹ.... سونی مسومات، کمہار (پہچان، منہہ میں پان)
بائٹ..... کندن پنڈت ، کمہار (پہچان، سفید لائن والی شرٹ پہنے ہوئے)
Last Updated : Oct 26, 2019, 11:02 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.