ETV Bharat / state

sumaiya Maryam سمیہ مریم غریب طالبات کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر نے کیلئے پُر عزم

author img

By

Published : Apr 9, 2023, 12:16 PM IST

Updated : Apr 9, 2023, 2:32 PM IST

گیا کی سمیہ مریم غریب پسماندہ علاقوں کی لڑکیوں کو مفت کمپیوٹر کی تعلیم دینے اور معاشرے کے تئیں اپنی ذمہ داری کو نبھانے کے مشن میں مصروف ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ تعلیم اس خوشبو کی مانند ہے جسے معاشرے میں پھیلانے سے مثبت تبدیلی آتی ہے، خاص طور پر جب لڑکیاں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں گی تو وہ آنے والی نسلوں کو بھی سنواریں گی اور جدید تعلیم ٹکنالوجی سے آراستہ ہوکر لڑکیاں بھی خود کفیل ہوں گی۔

سمیہ مریم
سمیہ مریم
سمیہ مریم

گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا سے تعلق رکھنے والی سمیہ مریم پیشہ سے کمپیوٹر انجنیئر ہیں، تاہم وہ اپنی ملازمت کو چھوڑ کر غریب و پسماندہ علاقوں کی لڑکیوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔ سمیہ مریم گذشتہ دو برسوں سے اس کام کو انجام دے رہی ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ گاؤں دیہات، پسماندہ، غریب، اقلیت، دلت اور مہادلت کی بچیاں کمپیوٹر میں اتنی جانکاری حاصل کرلیں کہ وقت پڑنے سائبر کیفے کھول سکیں۔ سائبر کیفے سے انہیں ہردن کی ہزار دو ہزار کی آمدنی ہوجائے گی اور وہ اپنے کنبہ کی پرورش کرسکیں گی۔

سمیہ مریم اپنے اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے گاؤں دیہات ٹولے محلے کے ساتھ سرکاری اسکولز جاتی ہیں اور وہاں بچیوں کو کمپیوٹر کا کورس کراتی ہیں۔ سرکاری اسکولز میں بھی ان کی توجہ زیادہ تر ایسے اسکولز پر ہوتی ہے جہاں پر کمپیوٹر کا پورا سسٹمز' لیب' ہوتا ہے اور وہاں کمپیوٹر کے ٹیچر کی کمی کی وجہ سے تعلیم نہیں ہوپاتی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں سمیہ مریم ہفتہ میں دو دن جاکر پڑھاتی ہیں جب کہ بقیہ ایام میں وہ محلے میں جاکر پڑھاتی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ سمیہ مریم اس کے لیے ایک روپے بھی فیس نہیں لیتی ہیں، وہ اس کام کو مفت کرتی ہیں۔ ان کے اس کام میں اہل خانہ کا بھی بھرپور تعاون ہوتا ہے۔
سمیہ مریم نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران بتایاکہ اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بھوپال چلی گئیں جہاں انہوں نے راجیو گاندھی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے ایم ٹیک مکمل کیا۔ سمیہ بتاتی ہیں کہ انہیں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک بڑے پیکج کے ساتھ ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری بھی مل گئی لیکن انہوں نے اس ملازمت کو چھوڑ کر اپنے آبائی ضلع میں واقع اسکولوں سمیت دیہی علاقوں میں مفت کمپیوٹر کی تعلیم فراہم کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ بچیوں کو مستقل بنیادوں پر مفت تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ وہ ان کی صلاحیتوں کو بھی نکھار رہی ہیں۔
کمپیوٹر کا علم ہونا وقت کی ضرورت:
سمیہ مریم نے خصوصی گفتگو کے دوران کہاکہ آج بڑے شہروں کی لڑکیاں ڈیجیٹلائزیشن کا حصہ ہوگئی ہیں لیکن چھوٹی جگہوں ابھی ڈیجیٹلائزیشن چلن عام نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں وزیر اعظم نریندر مودی سمیت ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی ڈیجیٹل لین دین سے لیکر سبھی کاموں کو آن لائن کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ کچھ شعبوں اور جگہوں پر اسے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع گیا میں دیکھیں تو اب اسکول ہوں یا کالج سبھی جگہ پر آن لائن فارم بھرے جاتے ہیں۔ اگر لڑکیاں کمپیوٹر کے علم سے واقفیت رکھیں گی اور وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لیے کام کرنا چاہیں گی تو وہ کہیں بھی آسانی سے کمپیوٹر سے جڑے کام کرسکتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا ذریعہ معاش ہوگا۔
مزید پڑھیں:کمپیوٹر کورس کی تکمیل پر طالبات کو سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا
سمیہ مریم نے بتایا کہ وہ جن جگہوں پر کمپیوٹر کا کورس کراتی ہیں وہاں ستر لڑکیوں کا بیچ ہوتا ہے۔ کچھ اسکولز میں لڑکیوں کے ساتھ لڑکے بھی ہیں جو کمپیوٹر کا کورس ان سے سیکھتے ہیں۔ ابھی کمپیوٹر کا ابتدائی اور بنیادی چیزوں کے تعلق سے پڑھایا جاتاہے جہاں پر کمپیوٹر نہیں ہے وہاں وہ اپنے ساتھ دو تین لیب ٹاپ لیکر جاتی ہیں اور اس سے وہ پڑھاتی ہیں۔

انہوں نے بتایاکہ چونکہ ابھی رمضان کامقدس مہینہ جاری ہے اور نئے سیشن کا آغاز ہوا ہے، اس لیے پندرہ مارچ کے بعد سے وہ کلاس بند کیے ہوئے ہیں۔ رمضان کے بعد پھر سے کلاس شروع ہوگی۔ خاص بات یہ ہے کہ انکے پڑھانے مستقل کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، جہاں پر ابتدائی تعلیم مکمل کرا دیتی ہیں وہاں سے وہ دوسری جگہوں کا رخ کرتی ہیں۔ ان کے اس کام میں ان کے بھائی بھی تعاون کرتے ہیں۔ ان کے بھائی احمد عبداللہ شہبازی کی گلیڈ بھارت فاؤنڈیشن کے نام سے ایک تنظیم ہے جس کے تحت وہ سماجی کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ سمیہ مریم شہر کے نگمتیہ کالونی کی رہنے والی ہیں۔ سمیہ شادی شدہ ہیں اور ان کے سسرال والوں کی جانب سے بھی اس کام میں مدد ملتی ہے۔ انہیں سسرال والوں کی طرف سے بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ خاص طور پر ان کے شوہر انکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

سمیہ مریم

گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا سے تعلق رکھنے والی سمیہ مریم پیشہ سے کمپیوٹر انجنیئر ہیں، تاہم وہ اپنی ملازمت کو چھوڑ کر غریب و پسماندہ علاقوں کی لڑکیوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔ سمیہ مریم گذشتہ دو برسوں سے اس کام کو انجام دے رہی ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ گاؤں دیہات، پسماندہ، غریب، اقلیت، دلت اور مہادلت کی بچیاں کمپیوٹر میں اتنی جانکاری حاصل کرلیں کہ وقت پڑنے سائبر کیفے کھول سکیں۔ سائبر کیفے سے انہیں ہردن کی ہزار دو ہزار کی آمدنی ہوجائے گی اور وہ اپنے کنبہ کی پرورش کرسکیں گی۔

سمیہ مریم اپنے اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے گاؤں دیہات ٹولے محلے کے ساتھ سرکاری اسکولز جاتی ہیں اور وہاں بچیوں کو کمپیوٹر کا کورس کراتی ہیں۔ سرکاری اسکولز میں بھی ان کی توجہ زیادہ تر ایسے اسکولز پر ہوتی ہے جہاں پر کمپیوٹر کا پورا سسٹمز' لیب' ہوتا ہے اور وہاں کمپیوٹر کے ٹیچر کی کمی کی وجہ سے تعلیم نہیں ہوپاتی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں سمیہ مریم ہفتہ میں دو دن جاکر پڑھاتی ہیں جب کہ بقیہ ایام میں وہ محلے میں جاکر پڑھاتی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ سمیہ مریم اس کے لیے ایک روپے بھی فیس نہیں لیتی ہیں، وہ اس کام کو مفت کرتی ہیں۔ ان کے اس کام میں اہل خانہ کا بھی بھرپور تعاون ہوتا ہے۔
سمیہ مریم نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران بتایاکہ اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بھوپال چلی گئیں جہاں انہوں نے راجیو گاندھی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سے ایم ٹیک مکمل کیا۔ سمیہ بتاتی ہیں کہ انہیں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک بڑے پیکج کے ساتھ ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری بھی مل گئی لیکن انہوں نے اس ملازمت کو چھوڑ کر اپنے آبائی ضلع میں واقع اسکولوں سمیت دیہی علاقوں میں مفت کمپیوٹر کی تعلیم فراہم کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ بچیوں کو مستقل بنیادوں پر مفت تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ وہ ان کی صلاحیتوں کو بھی نکھار رہی ہیں۔
کمپیوٹر کا علم ہونا وقت کی ضرورت:
سمیہ مریم نے خصوصی گفتگو کے دوران کہاکہ آج بڑے شہروں کی لڑکیاں ڈیجیٹلائزیشن کا حصہ ہوگئی ہیں لیکن چھوٹی جگہوں ابھی ڈیجیٹلائزیشن چلن عام نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں وزیر اعظم نریندر مودی سمیت ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی ڈیجیٹل لین دین سے لیکر سبھی کاموں کو آن لائن کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ کچھ شعبوں اور جگہوں پر اسے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع گیا میں دیکھیں تو اب اسکول ہوں یا کالج سبھی جگہ پر آن لائن فارم بھرے جاتے ہیں۔ اگر لڑکیاں کمپیوٹر کے علم سے واقفیت رکھیں گی اور وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لیے کام کرنا چاہیں گی تو وہ کہیں بھی آسانی سے کمپیوٹر سے جڑے کام کرسکتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا ذریعہ معاش ہوگا۔
مزید پڑھیں:کمپیوٹر کورس کی تکمیل پر طالبات کو سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا
سمیہ مریم نے بتایا کہ وہ جن جگہوں پر کمپیوٹر کا کورس کراتی ہیں وہاں ستر لڑکیوں کا بیچ ہوتا ہے۔ کچھ اسکولز میں لڑکیوں کے ساتھ لڑکے بھی ہیں جو کمپیوٹر کا کورس ان سے سیکھتے ہیں۔ ابھی کمپیوٹر کا ابتدائی اور بنیادی چیزوں کے تعلق سے پڑھایا جاتاہے جہاں پر کمپیوٹر نہیں ہے وہاں وہ اپنے ساتھ دو تین لیب ٹاپ لیکر جاتی ہیں اور اس سے وہ پڑھاتی ہیں۔

انہوں نے بتایاکہ چونکہ ابھی رمضان کامقدس مہینہ جاری ہے اور نئے سیشن کا آغاز ہوا ہے، اس لیے پندرہ مارچ کے بعد سے وہ کلاس بند کیے ہوئے ہیں۔ رمضان کے بعد پھر سے کلاس شروع ہوگی۔ خاص بات یہ ہے کہ انکے پڑھانے مستقل کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، جہاں پر ابتدائی تعلیم مکمل کرا دیتی ہیں وہاں سے وہ دوسری جگہوں کا رخ کرتی ہیں۔ ان کے اس کام میں ان کے بھائی بھی تعاون کرتے ہیں۔ ان کے بھائی احمد عبداللہ شہبازی کی گلیڈ بھارت فاؤنڈیشن کے نام سے ایک تنظیم ہے جس کے تحت وہ سماجی کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ سمیہ مریم شہر کے نگمتیہ کالونی کی رہنے والی ہیں۔ سمیہ شادی شدہ ہیں اور ان کے سسرال والوں کی جانب سے بھی اس کام میں مدد ملتی ہے۔ انہیں سسرال والوں کی طرف سے بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ خاص طور پر ان کے شوہر انکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

Last Updated : Apr 9, 2023, 2:32 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.