ETV Bharat / international

یہ کیسا اسکول ہے؟

برطانوی تنظیم 'سیو چلڈرین' کے مطابق ادلب میں 50 فیصد سے زائد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔

متعلقہ تصویر
author img

By

Published : Sep 11, 2019, 11:19 PM IST

Updated : Sep 30, 2019, 7:17 AM IST

ملک شام میں یہ بچوں کے اسکول کا وقت ہے۔ ملک کے شمالی شہر 'اِدلِب' کے 'کیفتن' نامی کیمپ میں تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں۔

یہ کیسا اسکول ہے؟

یہاں بچوں کی تعلیم کی غرض سے عارضی کیمپ میں کلاسیز کی شروعات کی گئی ہے۔

سارہ احمد نامی طالبہ نے بتایا کہ وہ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ دوست بھی بناتی ہیں۔ یہاں ریاضی، عربی اور انگلش کے علاوہ دوسرے مضامین بھی سکھائے جاتے ہیں۔

سارہ کا مزید کہنا ہے کہ گذشتہ برس وہ اور ان کے بھائی بہن بمباری کے سبب اسکول نہیں جا سکے تھے۔ فی الحال اسکو کھلا ہے اور اب اس صورت حال میں وہ اسکول آ سکتے ہیں۔

شام میں تقریبا 8 برس کی جنگ کے دوران بیشتر تعلیمی ادارے تباہ ہو گئے ہیں۔

بچوں کے مستقبل سے متعلق کام کرنے والی ایک جماعت نے گذشتہ ہفتے دی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ادلب شہر کے تقریبا 50 فیصد اسکولز یا تو تباہ ہو گئے یا غیر محفوظ ہیں یا پھر انہیں بے گھر ہونے والے افراد کے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

بچوں کی حفاظت اور دیگر معاملات سے متعلق کام کرنے والی برطانوی تنظیم 'سیو چلڈرین' کے مطابق ادلب میں 50 فیصد سے زائد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ حالات کے پیش نظر ساڑھے 6 لاکھ بچوں میں سے محض 3 لاکھ بچے ہی اسکول میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ کیسا اسکول ہے؟
یہ کیسا اسکول ہے؟

لوئیدا حج اسماعیل ایک ٹیچر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں تازہ فوجی مہم کے نتیجے میں 87 سے زائد تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا ہے۔ اور 2 سو سے زائد اسکولز کو بے گھر افراد کے پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

شامی فوجیں رواں برس 30 اپریل سے ادلب میں عسکریت پسندوں کے خلاف مسلسل کارروائی کررہی ہیں۔ انہوں نے ادلب کے جنوب میں کچھ علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا ہے۔

اسی کارروائی کے نتیجے میں تقریبا 5 لاکھ افراد اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کمشنر مشیل بیچلیٹ نے بتایا کہ شام میں 29 اپریل سے 29 اگست کے درمیان ہونے والی جنگ میں 1 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 304 بچے بھی شامل ہیں۔

ملک شام میں یہ بچوں کے اسکول کا وقت ہے۔ ملک کے شمالی شہر 'اِدلِب' کے 'کیفتن' نامی کیمپ میں تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیں۔

یہ کیسا اسکول ہے؟

یہاں بچوں کی تعلیم کی غرض سے عارضی کیمپ میں کلاسیز کی شروعات کی گئی ہے۔

سارہ احمد نامی طالبہ نے بتایا کہ وہ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ دوست بھی بناتی ہیں۔ یہاں ریاضی، عربی اور انگلش کے علاوہ دوسرے مضامین بھی سکھائے جاتے ہیں۔

سارہ کا مزید کہنا ہے کہ گذشتہ برس وہ اور ان کے بھائی بہن بمباری کے سبب اسکول نہیں جا سکے تھے۔ فی الحال اسکو کھلا ہے اور اب اس صورت حال میں وہ اسکول آ سکتے ہیں۔

شام میں تقریبا 8 برس کی جنگ کے دوران بیشتر تعلیمی ادارے تباہ ہو گئے ہیں۔

بچوں کے مستقبل سے متعلق کام کرنے والی ایک جماعت نے گذشتہ ہفتے دی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ادلب شہر کے تقریبا 50 فیصد اسکولز یا تو تباہ ہو گئے یا غیر محفوظ ہیں یا پھر انہیں بے گھر ہونے والے افراد کے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

بچوں کی حفاظت اور دیگر معاملات سے متعلق کام کرنے والی برطانوی تنظیم 'سیو چلڈرین' کے مطابق ادلب میں 50 فیصد سے زائد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ حالات کے پیش نظر ساڑھے 6 لاکھ بچوں میں سے محض 3 لاکھ بچے ہی اسکول میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ کیسا اسکول ہے؟
یہ کیسا اسکول ہے؟

لوئیدا حج اسماعیل ایک ٹیچر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس علاقے میں تازہ فوجی مہم کے نتیجے میں 87 سے زائد تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا ہے۔ اور 2 سو سے زائد اسکولز کو بے گھر افراد کے پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

شامی فوجیں رواں برس 30 اپریل سے ادلب میں عسکریت پسندوں کے خلاف مسلسل کارروائی کررہی ہیں۔ انہوں نے ادلب کے جنوب میں کچھ علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا ہے۔

اسی کارروائی کے نتیجے میں تقریبا 5 لاکھ افراد اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کمشنر مشیل بیچلیٹ نے بتایا کہ شام میں 29 اپریل سے 29 اگست کے درمیان ہونے والی جنگ میں 1 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 304 بچے بھی شامل ہیں۔

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Sep 30, 2019, 7:17 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.