وادیٔ کشمیر میں مواصلاتی نظام پر جاری پابندی نے زمانہ قدیم کی کئی یادوں کو تازہ کردیا ہے۔ جو کام فون، ای میل، وہاٹس ایپ یا فیس بک کے ذریعے انجام دیے جاتے تھے، وہ اب تحریری پیغامات، قاصد یا بذات خود جاکر انجام دیے جارہے ہیں۔
شمالی کشمیر کے قصبہ بارہمولہ کے ساکن نذیر احمد نے بتایا کہ 'زمانۂ قدیم کی طرح مجھے اپنے ایک رشتہ دار کے پاس قیام کے لیے گھر والوں کو ایک دوست کے ذریعے پیغام بھیجنا پڑا۔'
انہوں نے کہا کہ 'میں اپنے ایک رشتہ دار کے پاس گیا ہوا تھا جب انہوں نے رات کو وہیں قیام کرنے کی بات کہی تو مجھے ایک دوست کے ذریعے گھر والوں کو پیغام بھیجنا پڑا تاکہ وہ پریشان نہ ہوجائیں'۔
وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے ساکن ظہور احمد نے بتایا کہ 'سری نگر میں رات گزارنے سے میرے گھر والے پریشان ہوگئے۔'
انہوں نے کہا کہ 'میں کسی ضروری کام کے لیے سری نگر گیا تھا، کام پورا نہ ہونے کی وجہ سے مجھے رات کو سری نگر میں ہی قیام کرنا پڑا، متعدد کوشش کے باوجود گھر والوں کے ساتھ رابطہ نہیں ہوسکا، میں خود تو آرام سے سری نگر میں ایک دوست کے پاس قیام پذیر تھا لیکن میرے گھر والے رات بھر جاگتے رہے اور انہوں نے گردونواح کے تمام رشتہ داروں کے گھروں کی خاک چھانی، میری والدہ نے کچھ بھی نہیں کھایا'۔
ظہور احمد نے کہا کہ 'جب میں اگلے روز گھر پہنچا تو جیسے میں مناسک حج کی ادائیگی کے بعد گھر واپس لوٹا تھا، سارا گاؤں میرے گھر آیا اور میرے احباب و اقارب مجھے گلے لگارہے تھے۔'
ایک سرکاری اسپتال میں تعینات ایک ملازم نے کہا کہ 'مجھے اچانک رات کو اسپتال میں رکنا پڑا مجھے گھر والوں کو پیغام بھیجنے کے لیے اپنے ایک ساتھی کو بھیجنا پڑا۔'
محمد یوسف نامی ایک شہری نے کہا کہ 'موبائل فون کے ذریعے جو کام منٹوں میں انجام دیا جاتا تھا وہ اب ہفتوں کے بعد بھی ممکن نہیں ہوپا رہا ہے۔'
واضح رہے کہ وادی میں گزشتہ دو ماہ سے مواصلاتی نظام بدستور بند ہے جس کے باعث کشمیریوں کو متعدد مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔