کے کویتا نے شہر حیدرآباد کے گاندھی نگر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ صدر ریاستی بی جے پی بنڈی سنجے نے نرسمہا راو کی سمادھی کے قریب سیاسی ڈرامہ کیا ہے۔ انہوں نے مرکزی مملکتی وزیر داخلہ کشن ریڈی کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے دعوی کیا تھا کہ سیلاب کی امداد کے لئے ریاستی حکومت کی طرف سے مرکز کو رپورٹ نہیں بھیجی گئی ہے۔
کویتا نے ان کے اس دعوے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یہ سوال کیا کہ ان دیگر 6 ریاستوں جن کو 4,700 کروڑ روپے امداد جاری کی گئی تھی، کیا وہ امداد رپورٹ بھیجنے پر دی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان ریاستوں نے کوئی رپورٹ مرکز کو نہیں بھیجی تھی، اس کے باوجود انہیں یہ امداد فراہم کی گئی۔
کویتا نے شہر حیدرآباد میں روہنگیا کے مسئلہ پر کہا کہ اگر بیرونی ممالک کے باشندے یہاں ہیں تو یہ مرکز کی ناکامی ہے، ریاستی حکومت کی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ حکومت گذشتہ چند دنوں سے سابق وزیراعظم نرسمہا راو کی صدی تقاریب منا رہی ہے لیکن کانگریس اور بی جے پی کے لیڈروں نے اس پر ایک دن بھی بات نہیں کی لیکن اب انتخابات میں نرسمہا راو کے خلاف متنازعہ ریمارکس پر یہ دونوں جماعتیں اس کا جواب دے رہی ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ مرکز کی بی جے پی حکومت کو نرسمہاراو کو بھارت رتن ایوارڈ کا اعلان کرنے سے کس نے روکا ہے؟ متحدہ آندھراپردیش کے سابق وزیراعلی این ٹی راماراو کو بھی بھارت رتن دینے کا کئی دنوں سے مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن مرکزی حکومتیں اس پر توجہ نہیں دے رہی ہیں۔ نرسمہاراو اور این ٹی راماراو کو بھارت رتن ایوارڈ کا اعلان کئے بغیر جی ایچ ایم سی کے انتخابات میں ووٹ مانگنے کا بی جے پی کو اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے حکومت کی جانب سے لگائے گئے فلیکسی بورڈ کو بی جے پی کے لیڈروں کی جانب سے نکال دینے کو عجیب و غریب حرکت قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوام بی جے پی کی حرکتوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
بی جے پی ہر انتخابات میں مذہب کی سیاست کے سوا کچھ نہیں کرتی ہے۔ ترقی، جی ڈی پی کے بارے میں بات نہیں کی جاتی بلکہ بھگوان کے نام پر سیاست کی جاتی ہے۔ انتخابات کے وقت جو دل میں آیا وہ بولا جاتا ہے۔ ان باتوں پر عوام بھروسہ نہیں کریں گے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ مسلسل عوام کے درمیان رہنے والی ٹی آر ایس کو ووٹ دیں۔