قرآن کے کئی پاروں کا منظوم ترجمہ کرنے والے کیف بھوپالی مشاعرے کے مقبول ترین شاعروں میں تھے-
ان کا پہلا شعری مجموعہ شعلے حرف سنہ 1957 میں شائع ہوا جس کی بڑی پذیرائی ہوئی-
ان کی غزلوں کو کئی گلوکاروں نے اپنی آواز دی اور شہرت پائی اس کے علاوہ کوہ بتا ں کو بھی لوگوں نے بہت سراہا۔انہوں نے کئی فلموں کے لئے نغمے لکھے جو بہت مقبول ہوئے-
کیف بھوپالی کی پوری زندگی حادثوں سے عبارت رہی۔ دنیا نے جو داغ دیے اور زمانے سے جو غم ملے اس کی کوئی حد اور حساب نہیں۔
انہیں زخموں اور داغوں کو انہوں نے پوری صداقت کے ساتھ اپنی خصوصی شاعری کے رنگ میں رنگ دیا-
شاعری میں خدائے سخن میر تقی میر کے مقلد ہونے کا دعوی کرنے والے کیف بھوپالی نے لہجے میں ضرور میر کے قریب آنے کی کوشش کی ہے لیکن مرزا رنگ و آہنگ شاعر رہے-
مزید پڑھیں:جامعہ تشدد: کرائم برانچ کا پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا عندیہ
کیف بھوپالی کے شعری مجموعے شائع ہوکر منظر عام پر آ چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ مدھیہ پردیش اردو اکیڈمی کیف بھوپالی کی خدمات کے اعتراف میں ایک فنکار کو صوبائی اعزاز سے نوازتی ہے-
تم سے نہ مل کے خوش ہیں وہ دعویٰ کدھر گیا
، دو روز میں گلاب سا چہرہ اتر گیا،
جانِ بہار تم نے وہ کانٹے چبھوئے ہیں،
میں ہر گل شگفتہ کو چھونے سے ڈر گیا
اس دل کے ٹوٹنے کا مجھے کوئی غم نہیں،
اچھا ہوا کہ پاپ کٹا درد سر گیا،
میں بھی سمجھ رہا ہوں کہ تم تم نہیں رہے،
تم بھی یہ سوچ لو کہ مرا کیفؔ مر گیا