ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو شہر کے دار السلام ہال میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ایس ڈی پی آئی کی جانب سے کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد پیش آنے والے حالات اور حکومت ہند کی جانب سے کشمیریوں کے حقوق کی پامالی کو لیکر ایک اجلاس کا اہتمام کیاگیا۔
اس اجلاس کے مقصد کو یہ کہتے ہوئے اظہار کیا گیا کہ' کشمیر ہمارا ہے اور کشمیری بھی ہمارے ہیں'، ان کے حقوق کے لئے ہم سب آگے بڑھیں گے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائینگے۔
اس موقع پر سامعین سے خطاب کرتے ہوئے راجستھان سے تعلق رکھنے والے ایس ڈی پی آئی کے قومی سیکرٹری سیتارام کھوئی وال نے کہا کہ 'بی جے پی حکومت نے جمہوریت کو بالائے طاق رکھ کر تمام تر قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کشمیر سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا ہے۔ جس کا کسی بھی اعتبار سے جواز نہیں دیا جاسکتا۔
سیتارام کھوئی وال نے بتایا کہ پچھلے چند دنوں قبل ایس ڈی پی آئی پارٹی کے ایک وفد نے کشمیر کا دورہ کیا اور وہاں کے حالات کا جائزہ لیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کا دعویٰ ہےکہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ہے، یہ ایک بھونڈا مزاق کے سوا کچھ نہیں، سیتارام نے بتایا کہ انہوں نے کشمیر کے دورے پر کشمیریوں سے بات کی جس سے یہ پتہ چلاکہ حکومت نے جے آرمی پولیس و دیگر فورسز تعینات کر خوف کا ماحول پیدا کر رکھا ہے۔
اس موقع پر پاپولر فرنٹ کے سیکرٹری انیس احمد نے کہا کہ فلسطین کے ویسٹ بینک والی پالیسی کوکشمیر میں نافذ کیا جارہا ہے۔
انیس احمد نے کہا کہ سَنگھ پریوار کی قیادت والی بی جے پی حکومت جو منو اسمرتی کو اپنا دستور بنانے کی خواہاں ہے اس سے آرٹیکل 370 کا منسوخ کیا جانا کوئی تعجب نہیں۔
انیس نے کہا کہ ملک کے ہر باشندے کو آج چاہیے کہ' کشمیر اور کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کریں، ملک کا ہر باشندہ اٹھے اور انصاف کے لئے کھڑا ہو، تبھی ملک سے فستائیت کا خاتمہ ممکن ہے'۔
انیس احمد نے کشمیر سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے تعلق سے کانگریس پارٹی کے سینئر رہنماوں پر سخت تنقید کی اور کہا کہ انہوں نے اس معاملے میں کانگریسی نظریہ کو ریجیکٹ کیا اور بی جے پی حکومت کی تائید کی، انیس نے کہا کہ کانگریسی رہنماؤں کا یہ رویہ ان کے فرضی جمہوریت کو دکھاتاہے۔
ایس ڈی پی آیی کے ریاستی صدر الیاس محمد تھومبے نے کشمیر کے متعلق بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت سے چند چبھتے ہوئے سوال کئے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کشمیر سے اسپیشل اسٹیٹس کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے سلسلے میں صحیح طریقہ کیوں نہیں اپنایا گیا؟ کیا یہ جمہوری اقدار کے خلاف نہیں؟ عالمی سطح کی میڈیا کو کشمیر میں اپنا کام کرنے اجازت کیوں نہیں دی گئی؟ کشمیر کے سیاستدانوں کو کیوں نظر بند کیا گیا؟ اپوزیشن کو کیوں اعتماد میں نہیں لیا؟ کشمیری عوام سے اس کے متعلق رائے کیوں نہیں لی گئی؟
مزید پڑھیں: جمعہ کے پیش نظر کشمیر میں بندشیں
الیاس تھومبے نے مزید سوال کیا کہ یورپ کے پارلیمانی ارکان کے ایک رکن کریس ڈیویس کو وفد کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا جب کہ انہوں نے کشمیری عوام سے براہ راست بات کرنے کی پیشکش کی تھی؟ الیاس تھومبے نے کہا کہ حکومت کو ان سوالات کے جوابات دینے ہونگے۔
پروگرام میں معروف سماجی کارکن اور ای سی ایچ آر او کے ریاستی صدر ایڈووکیٹ بالن نے کشمیر کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور کہا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی فستائیت کا ایک بدترین نمونہ ہے جس کے خلاف مزاحمت کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔