ETV Bharat / briefs

شمیمہ بیگم کو سزائے موت مل سکتی ہے

شمیمہ بیگم داعش کی قائم کردہ خلافت کی ریاست میں شمولیت کے لیے 2015 میں برطانیہ سے فرار ہو گئی تھیں۔ میڈیا میں اسے "داعش کی دلہن" کے نام سے جانا جاتا ہے۔

شمیمہ بیگم کو بنگلہ دیش میں سزائے موت کا امکان
author img

By

Published : May 4, 2019, 1:19 PM IST

انگلینڈ سمیت دیگر یورپی ممالک سے ملک بدری کے اعلان کے بعد شمیمہ بیگم اپنے وطن بنگلہ دیش کی جانب رخ کرنے والی تھیں مگر بنگلہ دیش حکومت کے سخت تیور کی وجہ سے انہیں اپنا ارادہ بدل لیا۔

شمیمہ بیگم اگربنگلہ دیش کی سرزمین پرواپس آتی ہیں تو انہیں سزائے موت ہوسکتی ہے۔

اس سلسلے میں بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدالمعین کا کہنا ہے کہ شمیمہ بیگم کا بنگلہ دیش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اگروہ بنگلہ دیش کی سرزمین پر قدم رکھتی ہے تواسے سزائے موت دی جائے گی۔

سنہ 2018 میں مشرقی لندن سے دولت اسلامیہ میں شامل ہونے والی شمیمہ بیگم سے برطانوی شہریت چھین لی گئی تھی۔انہوں نے یورپ کے دیگر ممالک سے شہریت کی ایپل کی تھی۔ تمام یورپی ممالک نے انہیں شہریت دینے سے انکار کردیا تھا۔

اس کے بعد شمیمہ نے بنگلہ دیش جانےکا فیصلہ کیا جہاں ان کی والدہ رہتی ہیں۔

شمیمہ بیگم کے وکیل تسنیم اکونجی کاکہنا ہے کہ شمیمہ بیگم بنگلہ دیش جاسکتی ہیں۔ بنگلہ دیش کا شمیمہ بیگم سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میرے موکل کی جانب سے ہوم آفس کے فیصلہ کے خلاف اپیل کی جارہی ہے۔

دوسری طرف بنگلہ دیشی وزیر خارجہ عبدالمعین نے سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہ شمیمہ بیگم کو بنگلہ دیشی شہریت دینے کی بات تو دور انہیں ملک کی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ شمیمہ بیگم کے پاس کبھی بنگلہ دیشی شہریت تھی ہی نہیں تو اسے شہریت دینے کاسوال نہیں اٹھتا ہے۔ جہاں تک ان کے والدین کا سوال ہے وہ برطانوی شہری ہیں۔ وہ لوگ جہاں ہیں وہاں خوش ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ شمیمہ بیگم سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ برطانوی حکومت کی ذمہ داری ہے اور انہیں ہی اس سے مسئلے سے نمٹنا چاہیے۔

اگر وہ (شمشیمہ بیگم) بنگلہ دیش آتی ہیں پر دہشت گردی کے الزام لگائے جائیں گے۔

اگرچہ داعش میں شامل ہونے شامل ہونے والی شمیمہ بیگم نے کسی بھی دہشت گردکارروائی میں حصہ لینے کا اعتراف نہیں کیا ہے۔

شمیمہ بیگم کے وکیل کا کہنا ہے کہ ہوم آ فس کو اپنا فیصلہ بدلنا ہوگا۔ عدالتوں میں وقت اور ٹیکس دہندگان کا پیسہ بچایا جا سکتا ہے۔ شمیمہ سے شہریت چھین کر اہم اپنے مسائل دوسرے مالک پر تھوپ نہیں سکتے۔

برطانوی ہوم آفس کے مطابق بنگلہ دیشی وزیرخارجہ کے بیان کے بعد اس کیس میں کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ 15 سالہ کی عمر میں شمیمہ بیگم اپنی دو دیگر دوستوں کے ساتھ 2015 میں داعش میں شمولیت کے لیے برطانیہ چھوڑ کر شام چلی گئی تھیں۔

شمیمہ بیگم کا پیدا ہونے والا تیسرے بچے کی نمونیا کی وجہ سے موت ہوگئی۔ اس سے قبل اس کے دوبچے بھی ہلاک ہوچکے تھے۔

انگلینڈ سمیت دیگر یورپی ممالک سے ملک بدری کے اعلان کے بعد شمیمہ بیگم اپنے وطن بنگلہ دیش کی جانب رخ کرنے والی تھیں مگر بنگلہ دیش حکومت کے سخت تیور کی وجہ سے انہیں اپنا ارادہ بدل لیا۔

شمیمہ بیگم اگربنگلہ دیش کی سرزمین پرواپس آتی ہیں تو انہیں سزائے موت ہوسکتی ہے۔

اس سلسلے میں بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدالمعین کا کہنا ہے کہ شمیمہ بیگم کا بنگلہ دیش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اگروہ بنگلہ دیش کی سرزمین پر قدم رکھتی ہے تواسے سزائے موت دی جائے گی۔

سنہ 2018 میں مشرقی لندن سے دولت اسلامیہ میں شامل ہونے والی شمیمہ بیگم سے برطانوی شہریت چھین لی گئی تھی۔انہوں نے یورپ کے دیگر ممالک سے شہریت کی ایپل کی تھی۔ تمام یورپی ممالک نے انہیں شہریت دینے سے انکار کردیا تھا۔

اس کے بعد شمیمہ نے بنگلہ دیش جانےکا فیصلہ کیا جہاں ان کی والدہ رہتی ہیں۔

شمیمہ بیگم کے وکیل تسنیم اکونجی کاکہنا ہے کہ شمیمہ بیگم بنگلہ دیش جاسکتی ہیں۔ بنگلہ دیش کا شمیمہ بیگم سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میرے موکل کی جانب سے ہوم آفس کے فیصلہ کے خلاف اپیل کی جارہی ہے۔

دوسری طرف بنگلہ دیشی وزیر خارجہ عبدالمعین نے سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہ شمیمہ بیگم کو بنگلہ دیشی شہریت دینے کی بات تو دور انہیں ملک کی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ شمیمہ بیگم کے پاس کبھی بنگلہ دیشی شہریت تھی ہی نہیں تو اسے شہریت دینے کاسوال نہیں اٹھتا ہے۔ جہاں تک ان کے والدین کا سوال ہے وہ برطانوی شہری ہیں۔ وہ لوگ جہاں ہیں وہاں خوش ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ شمیمہ بیگم سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ برطانوی حکومت کی ذمہ داری ہے اور انہیں ہی اس سے مسئلے سے نمٹنا چاہیے۔

اگر وہ (شمشیمہ بیگم) بنگلہ دیش آتی ہیں پر دہشت گردی کے الزام لگائے جائیں گے۔

اگرچہ داعش میں شامل ہونے شامل ہونے والی شمیمہ بیگم نے کسی بھی دہشت گردکارروائی میں حصہ لینے کا اعتراف نہیں کیا ہے۔

شمیمہ بیگم کے وکیل کا کہنا ہے کہ ہوم آ فس کو اپنا فیصلہ بدلنا ہوگا۔ عدالتوں میں وقت اور ٹیکس دہندگان کا پیسہ بچایا جا سکتا ہے۔ شمیمہ سے شہریت چھین کر اہم اپنے مسائل دوسرے مالک پر تھوپ نہیں سکتے۔

برطانوی ہوم آفس کے مطابق بنگلہ دیشی وزیرخارجہ کے بیان کے بعد اس کیس میں کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ 15 سالہ کی عمر میں شمیمہ بیگم اپنی دو دیگر دوستوں کے ساتھ 2015 میں داعش میں شمولیت کے لیے برطانیہ چھوڑ کر شام چلی گئی تھیں۔

شمیمہ بیگم کا پیدا ہونے والا تیسرے بچے کی نمونیا کی وجہ سے موت ہوگئی۔ اس سے قبل اس کے دوبچے بھی ہلاک ہوچکے تھے۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.