ETV Bharat / bharat

صدیوں پرانے سون نہر نظام نے دنیا کو سینچائی کی نئی تکنیک سکھائی

سال 1769 کی خطرناک قحط سالی جو 1773 تک مسلسل ہوئی تھی، دنیا کی سب سے خطرناک قحط سالی میں سے ایک مانی جاتی ہے جس میں تقریبا ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔

The centuries-old Golden Canal system taught the world a new irrigation technique
صدیوں پرانے سون نہر نظام نے دنیا کو سینچائی کی نئی تکنیک سکھائی
author img

By

Published : Jul 11, 2020, 6:06 PM IST

جنوبی بہار کے آٹھ ضلعوں کی لائف لائن مانی جانے والی 143 برس پرانے سون نہر نظام نے نہ صرف دنیا کو سینچائی کی نئی تکنیک سکھائی بلکہ اس وقت کے بنگال صوبہ (مغربی بنگال، بہار اور اڈیشہ) کو قحط سالی جیسی صورت حال سے نجات دلانے میں مددگار بھی ثابت ہوئی ہے۔

اس اہم نہر نظام کی بنیاد اس وقت میں بنگال میں بھیانک قحط سالی کی وجہ سے ڈالی گئی تھی۔ بنگال انگریزوں کے دائرہ کار میں اہم جگہ تھی جس میں آج کے بنگلہ دیش، مغربی بنگال، بہار اور اڈیشہ شامل تھے۔

بنگال کی پوری معیشت زراعت پر مبنی تھی اور خلیج بنگال کے غیریقینی موسم نے مانسون کو بری طرح متاثرکیا تھا۔ اس کی وجہ سے مسلسل بنگال میں قحط پڑ رہے تھے۔

سال 1769 کی خطرناک قحط سالی جو 1773 تک مسلسل ہوئی تھی، دنیا کی سب سے خطرناک قحط سالی میں سے ایک مانی جاتی ہے جس میں تقریبا ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔

اس کے بعد مسلسل قحط آتے رہے جس سے بچنے کے لئے بنگال علاقے میں سینچائی کے نظام کو ڈیولپ کرنے کی بات سوچی جانے لگی۔ اس وقت بنگال کا علاقہ، جسے آج شاہ آباد اور مگدھ کے نام سے جانتے ہیں، کافی خشک علاقہ تھا اور یہاں بارش بہت کم ہوتی تھی۔ اسے ایک حد تک ریگستانی علاقے مانا جانا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ برطانوی راج میں اس علاقے کو ریگستانی علاقہ اعلان کرنے کے لئے ایک تجویز تھی لیکن بعد میں برطانوی حکومت نے سون ندی کے پانی کے بہاؤ کو دیکھتے ہوئے اس سے ایک سینچائی نظام کے طور پر ڈیولپ کرنے کا منصوبہ بنایا۔

اس وقت سون ندی میں پانی کا بہاؤ کافی ہوا کرتا تھا۔ اس کا پاٹ بارون علاقے کے نزدیک تقریبا چھ کلومیٹر چوڑی تھی جو اب کم ہوکر بمشکل تین کلومیٹر رہ گئی ہے۔

مدھیہ پردیش کے امرکنٹک سے لے کر بہار میں اورنگ آباد ضلع کے بارون اینی کٹ تک کوئی دیگر باندھ نہیں تھا اس لئے سون ندی میں پانی بھی کافی موجود ہوتا تھا۔ اس ندی کو باندھنے کی ذمہ داری برطانوی فوج کے ماہر انجینئر کرنل ایچ ڈیکنس کو سونپی گئی۔

اس برطانوی انجینئر نے 1863 میں قحط سالی سے متاثر سون علاقے میں سینچائی نظام کی تجویز برطانوی حکومت کے سامنے رکھی۔ جس میں کیمور پہاڑ کی ترائی میں ہی پانی کے ذخیرہ کرنے کا نظم تھا۔

سال 1865 میں انہوں نے نئی رپورٹ پیش کی اور اس کام کے لئے ڈیہری آن سون کا انتخاب کیا گیا۔ سال 1866 میں برطانیہ کی مہارانی کے ذریعہ تجویز قبول کرلئے گئے اور 1872 میں اس نہر کی تعمیر شروع ہوئی۔ اسے 1878 تک پورا کرلینا تھا لیکن 1877 میں اس نہر کی تعمیر مکمل کرلی گئی۔

سال 1874 میں مشرقی اورمغربی نہر، 1876 میں اہم نہر اور1880 میں بکسر اہم نہر میں پانی چھوڑدیا گیا۔ یہ اپنے وقت کا نہایت ہی انقلابی منصوبہ تھا۔ اس معاملے میں سینئر سینچائی ماہراور سپرنٹنڈنٹ انجینئر سنجے کمار شری واستو نے بتایا کہ دنیا میں اس وقت تک اس طرح کے ڈیزائن پر مبنی اور تکنیکی طور سے ڈیولپ سینچائی نظام نہیں تھا۔ پوری دنیا میں بعد میں جتنے بھی سینچائی منصوبے بنائے گئے انہوں نے سون نہر نظام کی ہی نقل کی۔

اس نہر نظام سے نہ صرف سینچائی کے لئے لاکھوں ہیکٹر زمین میں پانی مہیا ہوا بلکہ پانی کی سطح کے اوپر اٹھنے کی وجہ سے سون کے اردگرد کے علاقوں میں پانی کا بحران ختم ہوگیا اور قحط جیسی صورت حال سے بھی آزادی ملی۔ اتنا ہی نہیں یہ نہر نظام آمدورفت کے لئے بھی اہم ذریعہ بن کر ابھری۔

جنوبی بہار کے آٹھ ضلعوں کی لائف لائن مانی جانے والی 143 برس پرانے سون نہر نظام نے نہ صرف دنیا کو سینچائی کی نئی تکنیک سکھائی بلکہ اس وقت کے بنگال صوبہ (مغربی بنگال، بہار اور اڈیشہ) کو قحط سالی جیسی صورت حال سے نجات دلانے میں مددگار بھی ثابت ہوئی ہے۔

اس اہم نہر نظام کی بنیاد اس وقت میں بنگال میں بھیانک قحط سالی کی وجہ سے ڈالی گئی تھی۔ بنگال انگریزوں کے دائرہ کار میں اہم جگہ تھی جس میں آج کے بنگلہ دیش، مغربی بنگال، بہار اور اڈیشہ شامل تھے۔

بنگال کی پوری معیشت زراعت پر مبنی تھی اور خلیج بنگال کے غیریقینی موسم نے مانسون کو بری طرح متاثرکیا تھا۔ اس کی وجہ سے مسلسل بنگال میں قحط پڑ رہے تھے۔

سال 1769 کی خطرناک قحط سالی جو 1773 تک مسلسل ہوئی تھی، دنیا کی سب سے خطرناک قحط سالی میں سے ایک مانی جاتی ہے جس میں تقریبا ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔

اس کے بعد مسلسل قحط آتے رہے جس سے بچنے کے لئے بنگال علاقے میں سینچائی کے نظام کو ڈیولپ کرنے کی بات سوچی جانے لگی۔ اس وقت بنگال کا علاقہ، جسے آج شاہ آباد اور مگدھ کے نام سے جانتے ہیں، کافی خشک علاقہ تھا اور یہاں بارش بہت کم ہوتی تھی۔ اسے ایک حد تک ریگستانی علاقے مانا جانا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ برطانوی راج میں اس علاقے کو ریگستانی علاقہ اعلان کرنے کے لئے ایک تجویز تھی لیکن بعد میں برطانوی حکومت نے سون ندی کے پانی کے بہاؤ کو دیکھتے ہوئے اس سے ایک سینچائی نظام کے طور پر ڈیولپ کرنے کا منصوبہ بنایا۔

اس وقت سون ندی میں پانی کا بہاؤ کافی ہوا کرتا تھا۔ اس کا پاٹ بارون علاقے کے نزدیک تقریبا چھ کلومیٹر چوڑی تھی جو اب کم ہوکر بمشکل تین کلومیٹر رہ گئی ہے۔

مدھیہ پردیش کے امرکنٹک سے لے کر بہار میں اورنگ آباد ضلع کے بارون اینی کٹ تک کوئی دیگر باندھ نہیں تھا اس لئے سون ندی میں پانی بھی کافی موجود ہوتا تھا۔ اس ندی کو باندھنے کی ذمہ داری برطانوی فوج کے ماہر انجینئر کرنل ایچ ڈیکنس کو سونپی گئی۔

اس برطانوی انجینئر نے 1863 میں قحط سالی سے متاثر سون علاقے میں سینچائی نظام کی تجویز برطانوی حکومت کے سامنے رکھی۔ جس میں کیمور پہاڑ کی ترائی میں ہی پانی کے ذخیرہ کرنے کا نظم تھا۔

سال 1865 میں انہوں نے نئی رپورٹ پیش کی اور اس کام کے لئے ڈیہری آن سون کا انتخاب کیا گیا۔ سال 1866 میں برطانیہ کی مہارانی کے ذریعہ تجویز قبول کرلئے گئے اور 1872 میں اس نہر کی تعمیر شروع ہوئی۔ اسے 1878 تک پورا کرلینا تھا لیکن 1877 میں اس نہر کی تعمیر مکمل کرلی گئی۔

سال 1874 میں مشرقی اورمغربی نہر، 1876 میں اہم نہر اور1880 میں بکسر اہم نہر میں پانی چھوڑدیا گیا۔ یہ اپنے وقت کا نہایت ہی انقلابی منصوبہ تھا۔ اس معاملے میں سینئر سینچائی ماہراور سپرنٹنڈنٹ انجینئر سنجے کمار شری واستو نے بتایا کہ دنیا میں اس وقت تک اس طرح کے ڈیزائن پر مبنی اور تکنیکی طور سے ڈیولپ سینچائی نظام نہیں تھا۔ پوری دنیا میں بعد میں جتنے بھی سینچائی منصوبے بنائے گئے انہوں نے سون نہر نظام کی ہی نقل کی۔

اس نہر نظام سے نہ صرف سینچائی کے لئے لاکھوں ہیکٹر زمین میں پانی مہیا ہوا بلکہ پانی کی سطح کے اوپر اٹھنے کی وجہ سے سون کے اردگرد کے علاقوں میں پانی کا بحران ختم ہوگیا اور قحط جیسی صورت حال سے بھی آزادی ملی۔ اتنا ہی نہیں یہ نہر نظام آمدورفت کے لئے بھی اہم ذریعہ بن کر ابھری۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.