سنہ 1984 میں اندرا گاندھی اور 1991 میں راجیو گاندھی کا قتل، نیوکلیائی ٹیسٹ، بھارتی معیشت کو سہل بنانے اور اسے پوری دنیا کے لیے قابل رسائی بنانے کی کوششیں بھی اسی دوران کی گئی تھیں۔
پہلی بار اینٹی انکمبینسی لفظ کا استعمال اور پاکستان سے کرگل میں ہونے والی جنگ بھی اسی دور کا حصہ ہے۔ بابری مسجد کا انہدام اور ممبئی میں فرقہ وارانہ فسادات بھی اس دور کی تلخ یادیں ہیں۔
ایمرجنسی کے بعد ملک میں 1977 میں عام انتخابات ہوئے، اس بار بھارتیہ لوک دل سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور کانگریس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔
بھارتی لوک دل کا قیام 1974 میں کانگریس کی بے مہار اور آمرانہ حکومت کو روکنے کے لئے کیا گیا تھا۔
اس میں کل 7 پارٹیاں شامل تھیں۔ لوک دل کو 542 سیٹوں میں سے 295 سیٹوں پر کامیابی ملی جبکہ کانگریس 154 سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی۔
مورارجی دیسائی ملک کے پہلے غیر کانگریسی وزیراعظم بنے لیکن بد قسمتی سے 1979 میں انہیں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا جس کے بعد چودھری چرن سنگھ ملک کے وزیر اعظم بنے۔
اس دوران چودھری چرن سنگھ بھارت کے پہلے ایسے وزیراعظم بنے جو اپنی وزارت عظمی کی مدت کار میں کبھی پارلیمینٹ نہیں گئے۔
ساتویں لوک سبھا کی مدت 1980 سے 1984 کے درمیان تھی۔ جنتا دل کی شکست کے بعد اندرا گاندھی کی قیادت میں کانگریس ایک بار پھر سے واپسی کرنے میں کامیاب رہیں، وہیں جنتا پارٹی اپنی پرانی کامیابی نہیں دہرا پائی۔
اس بار 529 میں سے کانگریس نے 353 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ ایک بار پھر پارلیمینٹ میں حزب اختلاف کا کوئی رہنما نہیں تھا۔
آٹھواں لوک سبھا انتخابات 1984 میں ہوا۔ اس برس اندرا گاندھی قتل کردی گئیں۔ جس کے بعد سکھ مخالف فسادات شروع ہو گئے۔ اندرا گاندھی کا قتل ان کے ہی ایک سکھ باڈی گارڈ نے کر دیا تھا۔
ان کے قتل کے بعد 1984 میں کانگریس کو زبردست ہمدردی کے ووٹ ملے اور کانگریس ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی جیت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ راجیو گاندھی ملک کے وزیر اعظم بنے۔
کانگریس نے اس الیکشن میں 514 میں سے 404 سیٹوں پر جیت حاصل کی جبکہ ووٹنگ شیئر تقریباً 50 فیصد رہی تھی۔
ساتھ ہی ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا جب کوئی علاقائی پارٹی اپوزیشن پارٹی بنی اور وہ پارٹی تھی تیلگو دیشم پارٹی جس نے 30 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔
اپنا پہلا انتخابات لڑ رہی بھارتیہ جنتا پارٹی 2 سیٹوں پر جیت حاصل کرنے میں کامیاب رہی جس میں سے ایک گجرات میں تو دوسری سیٹ آندھراپردیش میں ملی تھی۔
نویں لوک سبھا انتخابات 1989 میں ہوئے۔ اس بار کانگریس کے لئے راہ بہت مشکل تھی۔ بوفورس بدعونوانی اور ایل ٹی ٹی ای شدت پسند تنظیم ایک بڑا انتخابی ایشو اور چیلنج بھی تھی۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی بلکہ قومی سطح پر اس بار تین اہم محاذ بنے، کانگریس 197 سیٹ کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی ضرور تھی لیکن حکومت کے قیام کے لئے یہ کافی نہیں تھا۔
جنتا دل 143 سیٹوں پر کامیاب رہی لیکن حکومت بنانے کے لئے نمبرز ان کے پاس بھی نہیں تھے۔
بی جے پی پہلی بار قومی سطح پر زبردست مظاہرہ کرتے ہوئے 85 سیٹوں پر جیت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
واضح رہے اس الیکشن میں وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی قیادت میں جنتا دل ،لال کرشن آڈوانی اور اٹل بہاری واجپیئ کی قیادت میں بی جے پی نے ایک ساتھ انتخابات میں حصہ لیا تھا۔
جنتا دل نے بی جے پی کی مدد سے حکومت کا قیام کیا اور وی پی سنگھ یعنی وشو ناتھ پرتاپ سنگھ ملک کے وزیر اعظم بنے۔
اسی دوران وی پی سنگھ کے مخالف رہے جنتا دل کے چندر شیکھر نے خود کو الگ کرلیا اور ایک نئی پارٹی سماجوادی پارٹی کی تشکیل کی۔
اس کے بعد بی جے پی نے بھی ایودھیا کے بابری مسجد-رام مندر مسئلے پر اپنا سپورٹ واپس لے لیا اور وی پی سنگھ 7 نومبر 1990 کو لوک سبھا میں اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کر پائے جس کے بعد انہیں استفعی دینا پڑا۔
اسی برس کانگریس کی حمایت سے چندر شیکھر کچھ دنوں کے لئے وزیر اعظم بنے لیکن اسی برس جاری بجٹ سیشن کے دوران ہی کانگریس نے اتحاد سے ناتہ توڑ لیا اور حکومت بکھر گئی۔
دسواں لوک سبھا انتخابات 1991 میں ہوا۔ اسی دوران ایل ٹی ٹی ای نے 21 مئی 1991 کو راجیو گاندھی کا ایک انتخابی ریلی کے دوران قتل کر دیا۔
اس انتخابات کی اہم بات یہ رہی کہ اسے منڈل، مندر، انتخابات کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وی پی سنگھ کی حکومت نے منڈل کمیشن کی رپورٹ کی بنا پر سرکاری نوکریوں میں او بی سی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو 27 فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کیا۔
وہیں پہلی بار ایودھیا میں بابری مسجد رام مندر کے متنازع ڈھانچے کو بی جے پی نے انتخابات میں سیاسی طور پر کھل کر استعمال کیا۔
کانگریس پارٹی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ضرور تھی مگر اکثریت تک پہنچنے میں ناکام رہی۔ کانگریس کو 232 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تو وہیں بی جے پی 120 سیٹوں پر جیت حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔
کانگریس نے دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ ملکر حکومت بنالی اور پی وی نرسمہا راؤ ملک کے وزیراعظم بنے۔ ساتھ ہی مغربی بھارت سے وزیراعظم بننے والے راؤ پہلے سیاست داں تھے۔
گیارہویں لوک سبھا انتخابات 1996 میں ہوئے۔ اس بار بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ بی جے پی کو 161، کانگریس کو 140 تو جنتا دل 40 تو وہیں علاقائی پارٹیوں نے 129 سیٹیں اپنے نام کیں۔
بی جے پی نے دوسری سیاسی پارٹیوں کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے اور اتحاد کے بل بوتے حکومت تو بنالی اور اٹل بہاری واجپئی وزیراعظم بنے۔ لیکن ان کی مدت کار صرف 13 دنوں کی رہی۔
ان کے بعد ایچ ڈی دیوگوڑا کی قیادت میں ایک متحدہ فرنٹ کا قیام عمل میں آیا اور دیوگوڑا وزیر اعظم بنے۔ انہیں بھی 18 ماہ بعد استفعی دینا پڑا، ان کے بعد اندر کمار گجرال وزیراعظم بنے۔
بارہویں لوک سبھا انتخابات میں ایک بار پھر بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور اس بار 182 سیٹیں اپنے نام کیں۔ وہیں کانگریس صرف 141 سیٹ ہی جیت پائی تو علاقائی پارٹیوں نے 101 سیٹوں پر جیت حاصل کی ۔
بی جے پی نے دوسری پارٹیوں کے ساتھ ملکر پہلی بار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کا قیام عمل میں لایا اور ایک بار پھر اٹل بہاری واجپئی ملک کے وزیر اعظم بنے۔
تیرہ ماہ بعد این ڈی اے کی اتحادی پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے، نے اٹل بہاری حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی جس کے بعد فلور ٹسٹ ہوا۔ اس میں بی جے پی ایک ووٹ سے ہار گئی اور اٹل بہاری واجپئی کو ایک بار پھر استعفی دینا پڑا۔ کرگل جنگ اور پوکھرن نیوکلیئر ٹسٹ اس حکومت میں ہونے والے کچھ اہم واقعات ہیں۔