انہوں نے کہا کہ 'نیشنل کانفرنس نے ہمیشہ ملک کے آئین کے تحت حقوق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کی ہے لیکن آج میں کس آئین کی بات کروں، آج اسی کے تحت میرے لوگوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جارہا ہے اور اسی جھنڈے کے پیچھے چھپ کر لوگوں کی پٹائی کی جاتی ہے'۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ 'جماعت اسلامی جموں وکشمیر پر پابندی سے ریاست کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر کو ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے'۔
نئی دلی کو کشمیریوں کی آواز تقسیم کرنے کی کوششیں بند کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے مرکز سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ 'سازشوں سے جموں و کشمیر آپ کا نہیں رہے گا، آگر آپ سوچتے ہیں کہ لوگوں کی آواز بانٹنے سے ریاست کا رشتہ ملک کے ساتھ مضبوط ہوگا تو یہ آپ کی بڑی غلط فہمی ہے، ان کوششوں سے آپ اس رشتے کو اور زیادہ کمزور کرنے کے مرتکب ہورہے ہیں'۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ 'جب تیسرے محاذ کی بات آتی ہے تو ایسا رجحان صرف کشمیر میں ہی دیکھنے کو کیوں ملتا ہے؟ جموں اور لداخ میں اس قسم کی سرگرمیاں کیوں نہیں؟ وادی میں جب کوئی نوجوان سیاست میں آتا ہے تو وہ نئی پارٹی کیوں بناتا ہے؟ یہ جموں اور لداخ میں دیکھنے کو نہیں ملتا ہے'؟
عمر عبداللہ نے کہا کہ 'کشمیریوں کو نشانہ بناکر یہ لوگ کیا پیغام بیجنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ریاست اُن کی ہے لیکن ریاست کے لوگ نہیں؟ جب مہاراجہ نے الحاق کیا تو وہ صرف زمین کا الحاق نہیں تھا، زمین کے ساتھ لوگ بھی تھے، آپ زمین کو اپناتے ہو لیکن لوگوں کو نہیں اپناتے اور اس کے باوجود آپ سونچتے ہو کہ یہاں کے لوگ کہیں کہ ہم آپ کا اٹوٹ انگ ہیں، صرف زمین کو اپنانا کافی نہیں ہے، یہاں کے لوگوں کو بھی اپنانا ہوگا'۔