علیگڑھ: پروفیسر ذکیہ ایک عرصے سے خواتین کی تعلیم کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ماہر تعلیم ہونے کے ناطے تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انھوں نے اپنی زندگی خواتین کی تعلیم اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ خواتین کی تعلیم کے لئے شمع روشن کرنا آج سے کئی برس قبل نہ صرف مشکل تھا بلکہ ناممکن سالگتا تھا لیکن پروفیسر ذکیہ اطہر جیسی شخصیات نے اس مشکل کام کو آج آسان بنا دیا ہے، انھوں نے ملت بالخصوص تعلیم نسوان کے لئے اہم کام انجام دیئے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔
ماہر تعلیم اور سماجی کارکن پروفیسر ذکیہ اطہر صدیقی نے بتایا انفرادی طور پر تعلیمی خدمت کے بہت سے مواقع ہماری زندگی میں آتے ہیں جب ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ ایک مرد کو تعلیم یافتہ بنانا صرف ایک فرد واحد کو تعلیم دینا ہے جبکہ ایک عورت کو تعلیم یافتہ بنانا ایک پورے خاندان کو تعلیم یافتہ بنانے کی مانند ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اپنے قرب وجوار میں ایسے طالب علم تلاش کرنے چاہیے جو اپنی تعلیم کے اخراجات برداشت نہ کرسکتے ہوں ہمیں چاہیے کہ ہم انکی مدد کریں۔
خواتین کی تعلیم سے متعلق انہوں نے کہا کہ معاشرے اور والدین کو لڑکیوں کی تعلیم پر بھی لڑکوں کی طرح توجہ دینے کی ضرورت ہے، لڑکیوں کی تعلیم بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی لڑکوں کی ہے اور جس طرح لڑکیوں کو پیدائش سے قبل اور پیدائش کے بعد اس کئے مار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ لڑکی ہے اور وہ لڑکوں کی طرح کام نہیں کر سکتی ہیں تو یہ غلط ہے آج لڑکیاں ہر شعبے لڑکوں کی ہی طرح اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا مجھے خواتین اور ان کی تعلیم کے لیے اور کرنا چاہیے تھا، آج بھی جب میں لڑکیوں کو گھروں اور بازار میں کام کرتی دیکھتی ہوں تو افسوس ہوتا ہے اس لئے ہمیں ایسی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کروانا چاہیئے ان کے داخلے کرواکر ان کی مدد کرنا چاہیے۔
غورطلب ہے کہ پروفیسر ذکیہ اطہر صدیقی کو اس سے قبل بھی انھیں متعدد ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے۔پروفیسر ذکیہ اے صدیقی 16 اپریل 1936 کو الہ آباد میں پیدا ہوئیں۔ 1961 میں شعبہ تعلیم میں لیکچرار، 1977 میں ریڈر اور بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر آف ایجوکیشن اور ویمنس کالج کی پرنسپل مقرر ہوئیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں عبداللہ ہال کی 9 سال پرووسٹ رہی۔ ویمنس کالج کی پرنسپل کی حیثیت سے اپنے دور میں وہ کالج میں کیرئیر پلاننگ سینٹر کی ڈائریکٹر بھی رہیں اور لڑکیوں کے لیے دیگر پیشہ ورانہ کورسز کے علاوہ سلائی، بیوٹیشن کی تربیت کے کورسز بھی متعارف کروائے۔ اپنے دور میں انھوں نے کالج کے انڈرگریجویٹ طلباء کے لیے نئے کورسز یعنی اسلامک اسٹڈیز، فلسفہ، بائیو کیمسٹری، شماریات اور کامرس شروع کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور وہ اے ایم یو میں سینٹر فار ویمنس اسٹڈیز کی بانی ڈائریکٹر بھی رہی۔
پروفیسر ذکیہ اے صدیقی کو تین سال کی مدت کے لیے وزارت انسانی وسائل کی ترقی کے تحت اقلیتوں کی تعلیم کے لیے دوبارہ تشکیل شدہ قومی نگرانی کمیٹی کی رکنیت عطا کی گئی تھی جس میں رہتے ہوئے انھوں نے گراں قدر کام انجام دیئے۔ پروفیسر ذکیہ 1994 میں وزارت خارجہ، حکومت ہند کے 3 رکنی خیر سگالی وفد کی نمائندہ تھیں جس نے خواتین اور بچوں کی ترقی پر اہم کام انجام دیا، اور مئی 1998 میں تاشقند میں منعقدہ ''ہندوستان اور یو ایس ایس آر میں خواتین کی پوزیشن'' کے موضوع پر ایک سیمینار میں شرکت کی اور ''ہندوستان میں خواتین کے لیے تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت اور مہارت کی بہتری'' کیلے آواز اُٹھائی۔
انہوں نے تین سال تک بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی لکھنؤ کے بورڈ آف مینجمنٹ کی رکن بھی رہی۔ انھیں وزارت برائے حقوق انسانی وسائل کے ''قومی خواندگی مشن'' کا رکن مقرر کیا گیا تھا۔ سرِدست وہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی نائب صدر ہیں، آج انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازے جانے پر علی گڑھ سمیت علمی ادبی حلقوں میں مسرت کی لہر ہے اور مبارکباد کا سلسلہ جاری ہے۔
پروفیسر ذکیہ کو خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ایوارڈ سے نوازا
Awarded to Prof. Zakia for Women Empowerment معروف ماہر تعلیم اور سماجی کارکن پروفیسر ذکیہ اطہر صدیقی کو دہلی کے وگیان بھون میں تعلیم کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے 'لیڈر آف انڈیا 2024' ایوارڈ سے نوازا گیا۔
Published : Mar 7, 2024, 7:22 PM IST
علیگڑھ: پروفیسر ذکیہ ایک عرصے سے خواتین کی تعلیم کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ماہر تعلیم ہونے کے ناطے تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انھوں نے اپنی زندگی خواتین کی تعلیم اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ خواتین کی تعلیم کے لئے شمع روشن کرنا آج سے کئی برس قبل نہ صرف مشکل تھا بلکہ ناممکن سالگتا تھا لیکن پروفیسر ذکیہ اطہر جیسی شخصیات نے اس مشکل کام کو آج آسان بنا دیا ہے، انھوں نے ملت بالخصوص تعلیم نسوان کے لئے اہم کام انجام دیئے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔
ماہر تعلیم اور سماجی کارکن پروفیسر ذکیہ اطہر صدیقی نے بتایا انفرادی طور پر تعلیمی خدمت کے بہت سے مواقع ہماری زندگی میں آتے ہیں جب ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ ایک مرد کو تعلیم یافتہ بنانا صرف ایک فرد واحد کو تعلیم دینا ہے جبکہ ایک عورت کو تعلیم یافتہ بنانا ایک پورے خاندان کو تعلیم یافتہ بنانے کی مانند ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اپنے قرب وجوار میں ایسے طالب علم تلاش کرنے چاہیے جو اپنی تعلیم کے اخراجات برداشت نہ کرسکتے ہوں ہمیں چاہیے کہ ہم انکی مدد کریں۔
خواتین کی تعلیم سے متعلق انہوں نے کہا کہ معاشرے اور والدین کو لڑکیوں کی تعلیم پر بھی لڑکوں کی طرح توجہ دینے کی ضرورت ہے، لڑکیوں کی تعلیم بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی لڑکوں کی ہے اور جس طرح لڑکیوں کو پیدائش سے قبل اور پیدائش کے بعد اس کئے مار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ لڑکی ہے اور وہ لڑکوں کی طرح کام نہیں کر سکتی ہیں تو یہ غلط ہے آج لڑکیاں ہر شعبے لڑکوں کی ہی طرح اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا مجھے خواتین اور ان کی تعلیم کے لیے اور کرنا چاہیے تھا، آج بھی جب میں لڑکیوں کو گھروں اور بازار میں کام کرتی دیکھتی ہوں تو افسوس ہوتا ہے اس لئے ہمیں ایسی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کروانا چاہیئے ان کے داخلے کرواکر ان کی مدد کرنا چاہیے۔
غورطلب ہے کہ پروفیسر ذکیہ اطہر صدیقی کو اس سے قبل بھی انھیں متعدد ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے۔پروفیسر ذکیہ اے صدیقی 16 اپریل 1936 کو الہ آباد میں پیدا ہوئیں۔ 1961 میں شعبہ تعلیم میں لیکچرار، 1977 میں ریڈر اور بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر آف ایجوکیشن اور ویمنس کالج کی پرنسپل مقرر ہوئیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں عبداللہ ہال کی 9 سال پرووسٹ رہی۔ ویمنس کالج کی پرنسپل کی حیثیت سے اپنے دور میں وہ کالج میں کیرئیر پلاننگ سینٹر کی ڈائریکٹر بھی رہیں اور لڑکیوں کے لیے دیگر پیشہ ورانہ کورسز کے علاوہ سلائی، بیوٹیشن کی تربیت کے کورسز بھی متعارف کروائے۔ اپنے دور میں انھوں نے کالج کے انڈرگریجویٹ طلباء کے لیے نئے کورسز یعنی اسلامک اسٹڈیز، فلسفہ، بائیو کیمسٹری، شماریات اور کامرس شروع کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور وہ اے ایم یو میں سینٹر فار ویمنس اسٹڈیز کی بانی ڈائریکٹر بھی رہی۔
پروفیسر ذکیہ اے صدیقی کو تین سال کی مدت کے لیے وزارت انسانی وسائل کی ترقی کے تحت اقلیتوں کی تعلیم کے لیے دوبارہ تشکیل شدہ قومی نگرانی کمیٹی کی رکنیت عطا کی گئی تھی جس میں رہتے ہوئے انھوں نے گراں قدر کام انجام دیئے۔ پروفیسر ذکیہ 1994 میں وزارت خارجہ، حکومت ہند کے 3 رکنی خیر سگالی وفد کی نمائندہ تھیں جس نے خواتین اور بچوں کی ترقی پر اہم کام انجام دیا، اور مئی 1998 میں تاشقند میں منعقدہ ''ہندوستان اور یو ایس ایس آر میں خواتین کی پوزیشن'' کے موضوع پر ایک سیمینار میں شرکت کی اور ''ہندوستان میں خواتین کے لیے تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت اور مہارت کی بہتری'' کیلے آواز اُٹھائی۔
انہوں نے تین سال تک بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی لکھنؤ کے بورڈ آف مینجمنٹ کی رکن بھی رہی۔ انھیں وزارت برائے حقوق انسانی وسائل کے ''قومی خواندگی مشن'' کا رکن مقرر کیا گیا تھا۔ سرِدست وہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی نائب صدر ہیں، آج انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازے جانے پر علی گڑھ سمیت علمی ادبی حلقوں میں مسرت کی لہر ہے اور مبارکباد کا سلسلہ جاری ہے۔