سرینگر (جموں کشمیر) : جموں کشمیر اینڈ لداخ ہائی کورٹ نے ایک سابق پولیس افسر کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے جو ان پولیس افسروں اور اہلکاروں میں شامل تھا جن پر سال 2006 میں ایک عام شہری کو عسکریت پسند جتلا کر جعلی تصادم کے دوران قتل کرنے کا الزام تھا۔ جسٹس اتل سری دھرن نے فیصلہ سناتے ہوئے اس بات پر حیرت ظاہر کی کہ 17 سال قبل شروع ہوا یہ مقدمہ ابھی تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ اس طویل عرصے کے دوران 72 میں سے صرف 28 گواہوں کا بیان ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ہائی کورٹ جج نے تین جولائی 2024 کو حکمنامہ جاری کرتے ہوئے کہا: ’’اس عدالت کو اس کیس کے حقائق پر تعجب ہے۔ یہ واضح طور پر آرٹیکل 21 کی خلاف ورزی کا کیس ہے جو مقدمے کی تاخیر کی وجہ سے ہوا ہے۔ مقدمہ، استغاثہ کے گواہوں کے مرحلے پر ہی رکا ہوا ہے، اور ریاست نے (اب تک یہ) نہیں بتایا کہ (مقدمہ میں) تاخیر کو درخواست گزار کے ساتھ کیسے منسوب کیا جا سکتا ہے۔‘‘
کیس کے ملزم، 56 سالہ بنسی لال، نے اس سال کے آغاز میں اپنی اہلیہ کے ذریعے ضمانت کی درخواست دائر کی تھی۔ ان کے وکیل نے استدلال کیا کہ بنسی لال گزشتہ 18 سال سے عدالتی حراست میں ہے، اس دوران وہ محض چند ماہ کی عارضی ضمانت پر رہا بھی ہوئے ہیں۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، عدالت نے بنسی لال کو ضمانت دے دی اور ان کی فوری رہائی کا حکم دے دیا۔
عدالت نے ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا: ’’درخواست گزار کو 50,000 روپے کے ذاتی مچلکے اور اسی رقم کے بقدر ایک ضامن کے ساتھ رجسٹرار جوڈیشل کی تسلی کے بعد فوری طور پر ضمانت پر رہا کیا جائے۔‘‘ بنسی لال اور دیگر (ملزمان) پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ ابتدا میں کشمیر کے سمبل پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا تھا، جہاں سال 2006 میں جعلی تصادم ہوا تھا۔ مقدمے کو گزشتہ برس اُس وقت جموں منتقل کیا گیا جب ریاست نے چار ملزمان، جن میں بنسی لال بھی شامل ہیں، کی مشترکہ درخواست کی مخالفت نہیں کی۔ سینئر ایڈوکیٹ سنیل سیٹھی اور ایڈوکیٹ شانم گپتا نے ملزموں کی پیروی کی، جبکہ ڈپٹی ایڈوکیٹ جنرل پی ڈی سنگھ نے یونین ٹیریٹری آف جموں کشمیر کی نمائندگی کی۔
یاد رہے کہ سال 2007 میں، سات پولیس اہلکاروں پر جنوبی کشمیر کے لارنو، کوکرناگ علاقے کے عبد الرحمان پڈر نامی ایک ترکھان کو جعلی تصادم (Fake Encounter) میں قتل کرنے کے بعد اسے عسکریت پسند جتلایا تھا۔ پولیس اہلکاروں پر اسوقت کی رنبیر پینل کوڈ (آر پی سی) کی دفعات 302 (قتل)، 120-بی (مجرمانہ سازش)، 364 (اغوا) اور 204 (ثبوت و شاہد مٹانا) کے تحت الزامات عائد کیے گئے تھے۔ سات ملزمان میں اُس وقت کے سینئر سپرانٹنڈنٹ آف پولیس (گاندربل) ہنس راج پریہار کے علاوہ بہادر رام، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، فاروق احمد گڈو، اس وقت کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر فاروق احمد پڈر، اس وقت کے سیلیکشن گریڈ کانسٹیبل، اور سابق کانسٹیبلز منظور احمد، ظہیر عباس اور بنسی لال شامل تھے۔
سال 2007 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے حراستی گمشدگیوں کا نوٹس لیتے ہوئے کئی ایسے واقعات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا جس کے دوران یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا کہ گاندربل پولیس ضلع کے علاقے میں کئی ایسے فرضی تصادم ہوئے ہیں جن میں عام شہریوں کو ہلاک کرنے کے بعد غیر ملکی دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ پولیس اہلکاروں نے کوکرناگ علاقے سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کو سرینگر کے مختلف علاقوں سے اغوا کیا تھا جس کے بعد انکا کہیں نام و نشان نہیں ملا۔ ان میں عبدالرحمان پڈر نامی بڑھئی،حول کی ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دینے والا ایک شہری اور لالچوک سرینگر میں بسکو سکول کے گیٹ کے باہر فٹ پاتھ پر عطر بیچنے والا نوجوان نزیر احمد ڈیکہ بھی شامل تھے۔ حکومت کی طرف سے تحقیقات کا حکم ملنے کے بعد فرضی تصادموں میں مارے گئے افراد کی قبر کشائی کی گئی اور ڈی این اے نمونے حاصل کئے گئے۔ ان ڈی این اے نمونوں سے واضح ہوا کہ ہلاک شدگان اصل میں مقامی لاپتہ افراد تھے، نہ کہ غیر ملکی دہشت گرد۔ نزیر احمد ڈیکہ کی قبر کشی کے دوران عطر کی ایک بوتل بھی پائی گئی جو ہلاکت کے وقت اسکی جیب میں تھی۔
یہ بھی پڑھیں: امشی پورہ شوپیاں فرضی انکاؤنٹر، فوجی کپٹین کی عمر قید سزا معطل