اردو

urdu

ETV Bharat / sukhibhava

'مڈ ڈے میل سکیم' کے لئے درکار فنڈز کی فوری فراہمی ناگزیر - Avani Kapur and Sharad Pandey articles

کووِڈ 19 کی وبا کی وجہ سے اچانک سکول بند ہوجانے کے نتیجے میں نہ صرف بچوں کی تعلیم بلکہ اُنہیں حکومتی سطح پر غذائیت کی فراہمی کا عمل بھی متاثر ہوگیا ہے۔

’مڈ ڈے میل سکیم‘ کے لئے درکار فنڈز کی فوری فراہمی ناگزیر
’مڈ ڈے میل سکیم‘ کے لئے درکار فنڈز کی فوری فراہمی ناگزیر

By

Published : Nov 14, 2020, 3:31 PM IST

'مڈ ڈے میل سکیم' کے لئے درکار فنڈز کی فوری فراہمی ناگزیر


از قلم: اوانی کپور

شرد پانڈے

نیشنل مڈ ڈے میل سکیم (سرکاری سکولوں میں بچوں کو دوپہر کا کھانا فراہم کرنے سے متعلق بھارت سرکار کی سکیم)، دُنیا بھر میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی سکیم ہے۔ اس کے تحت سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم 11.59 کروڑ بچوں کو غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کرنا یقینی بن جاتا ہے۔ اگرچہ سکول بند ہوجانے کے ساتھ ہی ریاستوں میں فوری طور پر متعلقہ کنبوں کو اناج یا فوڈ سیکورٹی الاونس (ایف ایس اے) فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، لیکن ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ حقیقی طور پر بچوں کو غذائیت سے بھر پور کھانا فراہم کرنے کا اصل ہدف پورا نہیں ہو پارہا ہے۔

اس مسئلے کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں اس سکیم سے متعلق منصوبہ بندی کی خامیاں اور مرکزی و ریاستی سرکاروں کی جانب سے فنڈز کی فراہمی میں تاخیر جیسے مسائل بھی شامل ہیں۔ یہ مسائل وبا سے پہلے ہی موجود تھے لیکن اب مزید بڑھ گئے ہیں۔ جب تک مڈ ڈے میل سکیم سے متعلق یہ مسائل حل نہیں ہوجاتے ہیں، ہم ایک بحران سے نکل کر دوسرے بحران میں گرتے جائیں گے۔

مارچ 2020ء کے ابتدا میں ہی سپریم کورٹ آف انڈیا نے سکولوں کے بند ہوجانے کی وجہ سے مڈ ڈے میل کی فراہمی رک جانے سے پیدا شدہ خطرے کو بھانپ لیا تھا۔ اسی لئے سپریم کورٹ نے ریاستوں کو ہدایات دیں کہ وہ وسیع پیمانے پر غذائیت کی کمی کا بحران پیدا ہوجانے کے امکان کے پیش نظر فوری اقدامات کریں۔ اس کے ساتھ ہی وزارت تعلیم نے ریاستوں کے نام ہدایات جاری کرتے ہوئے کہ تازہ تیار شدہ کھانا بچوں کے گھروں میں پہنچا دیا جائے یا پھر اُنہیں ’فوڈ سیکورٹی الاونس‘ فراہم کیا جائے۔

ریاستوں نے اس حکم کی تعمیل کی۔ بہار میں متعلقین کے کھاتوں میں پیسہ ڈال دیا گیا۔ راجستھان اور تلنگانہ جیسی ریاستوں میں اناج فراہم کیا گیا یا پھر فوڈ سیکورٹی الاونس دے دیا گیا، جس کے تحت اناج، دالیں اور تیل وغیرہ فراہم کیا گیا۔ یہاں تک کہ کیرالا میں مکمل کھانا فراہم کیا گیا، جس میں دودھ اور انڈے وغیرہ بھی شامل تھے۔ یہ کوششیں جاری رکھنے کےلئے اضافی فنڈز بھی مختص کئے گئے، تاکہ گرمیوں کے مہینوں میں بھی دوپہر کا کھانا فراہم کرنا یقینی ہو۔ حالانکہ وبا سے قبل گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران بچوں کو دوپہر کا کھانا فراہم نہیں کیا جاتا تھا۔

لیکن ان اقدامات کے باوجود حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ بعض بچوں کو ابھی تک وہ سب کچھ (دوپہر کا کھانا) فراہم نہیں کیا جاتا ہے، جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ آکسفام نے مئی اور جون کے دوران ایک سروے کیا، جس میں اڑیسہ، بہار، جھار کھنڈ اور اتر پردیش ریاستوں میں1158 والدین سے استفسار کرنے کے بعد پتہ چلا ہے کہ مجموعی طور پر ان ریاستوں میں 35 فیصد بچوں کو مڈ ڈے میل فراہم نہیں ہورہا ہے۔ اتر پردیش میں مڈ ڈے میل نہ پانے والے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ (92 فیصد) پائی گئی۔

ایسا کیوں ہوا ہے؟ یہ سمجھنے کےلئے سکیم کی خامیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ اس ضمن میں بجٹ، فنڈز کی فراہمی اور دیگر اعداد و شمار کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔

مڈ ڈے میل سکیم بنیادی طور پر مرکز کی سکیم ہے۔ اس کے تحت مرکزی سرکار اور ریاستی سرکاریں مل جل کر فنڈز فراہم کررہی ہیں۔ مرکزی سرکار 60 فیصد فنڈز فراہم کرتی ہے تاکہ یہ سکیم کامیابی کے ساتھ نافذ ہو۔ یعنی کھانا تیار کرنے کا خرچہ، کھانا پکانے والوں کی اجرتیں، کچن میں استعمال کی جانے والی اشیا کی قیمت اور اناج کی قیمت کا ساٹھ فیصد مرکزی سرکار برداشت کرتی ہے۔

مالی سال 2020.21ء کے شروعات میں مرکزی سرکار نے اس سکیم کے تحت گیارہ ہزار کروڑ روپے واگذار کئے، جسے بعد میں بڑھا کر بارہ ہزار چھ سو کروڑ کر دیا گیا۔اضافی سولہ سو کروڑ روپے گرمیوں کے مہینوں میں بھی مڈ ڈے میل فراہم کرنے کی غرض سے مختص کئے گئے۔ تاہم مرکزی سرکار کی جانب سے مطلوبہ فنڈز کی فراہمی کا عمل سُست رہا ہے۔ ہم نے اس ضمن میں اپریل سے جون یعنی مالی سال کے پہلے چوتھائی حصے میں فراہم کئے جانے والے فنڈز سے متعلق اعداد و شمار کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ مرکزی سرکار نے مطلوبہ مقدار میں فنڈز فراہم نہیں کئے ہیں۔ مثال کے طور پر راجستھان میں مالی سال کے پہلے چوتھائی حصے میں مرکز کی جانب سے فنڈز کی فراہمی کا تخمینہ 173 کروڑ روپے ہے لیکن محض 90 کروڑ روپے فراہم کئے گئے ہیں۔ اسی طرح آندھرا پردیش، دہلی اور اتر پردیش میں مرکزی سرکار نے متذکرہ عرصے میں مطلوبہ فنڈز کا محض 60 فیصد فراہم کیا ہے۔

یہاں تک کہ گرمیوں کے مہینوں کے لئے مختص اضافی رقومات تک فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر اترا کھنڈ میں ٖفوڈ سیکورٹی الاونس کا محض 43 فیصد فراہم کیا گیا ہے۔ یہاں تخمینے کے مطابق 12.54 کروڑ روپے فراہم کئے جانے تھے لیکن مرکزی سرکار نے محض 5.39 کروڑ روپے فراہم کئے ہیں۔ اسی طرح کرناٹک اور تامل ناڈو میں بالترتیب محض 73 فیصد اور79 فیصد رقومات جاری کی گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ 29 اکتوبر 2020ء تک صرف بیس ریاستوں اور یونین ٹریٹریز کو ہی گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران مڈ ڈے میلز سکیم کے تحت کوئی فنڈز واگذار کئے گئے ہیں۔

جن ریاستوں کو مرکزی سرکار کی جانب سے یہ فنڈز ملے ہیں، اُنہیں بھی یہ فنڈز تاخیر سے ملے ہیں۔ ان ریاستوں کو مالی سال کے پہلے چوتھائی حصے کےلئے یہ فنڈز دوسرے چوتھائی حصے کے آخر میں یا پھر تیسرے چوتھائی حصے کے آغاز میں ملے ہیں۔ کسی بھی سرکاری سکیم کو کامیابی کے ساتھ نافذ کرنے کےلئے فنڈز کی بر وقت فراہمی بہت ہی اہم ہوتا ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں، جن کے سبب کووِڈ ۱۹ جیسی سخت ضرورت میں بھی مڈ ڈے میل سکیم کے تحت خدمات کی فراہمی سست رہی ہے۔

صرف فنڈز کی فراہمی کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ تمام مستحق طلبا کو اس سکیم کے دائرے میں لانے میں بھی کوتاہی دیکھنے کو ملی ہے۔ سکیم کے ضوابط کے تحت ریاستی حکومتیں مرکزی سرکار کو مڈ ڈے میل کے لئے بچوں کی تعداد اس بنیاد پر پیش کرتی ہے، کہ پچھلے سال کتنے بچوں کو اس سکیم کے تحت استفادہ حاصل ہوا ہے۔ اسکے بعد اس کا از سر نو جائزہ لیا جاتا ہے اور پھر حتمی اعداد و شمار مرکز کو فراہم کئے جاتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کئی ریاستوں میں فوڈ سیکورٹی الاونس کے دائرے میں لائے گئے بچوں کی تعداد اصل تعداد سے کم تھی۔ بہار، مہاراشٹرا، تامل ناڈو اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں بچوں کی اصل تعداد کے مقابلے میں کم بچوں کو فوٖڈ سیکورٹی الاونس فراہم کیا گیا ہے۔

چونکہ وبا کے دوران روزگار ختم ہوجانے اور آمدن کم ہوجانے کے نتیجے میں کنبوں کو غذائیت کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور اس وجہ سے اُن مستحق بچوں کی اصل تعداد زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

جس طرح سے بچوں کی تعداد کا تخمینہ لگایا جاتا ہے، اس پر سوال پہلے بھی اٹھے ہیں۔ سال 2018.19 میں مڈ ڈے میل سکیم کے دائرے میں لائے گئے بچوں کی تعداد کے بارے میں جو تفصیلات مڈ ڈے میل ویب سائٹ پر ظاہر کئے گئے تھے، ان اعداد و شمار سے مختلف تھے، جو یونائیٹڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم (یو ڈی آئی ایس ای) نے ظاہر کئے ہیں۔ مرکزی سرکار اور ریاستوں کے ذرائع سے ظاہر ہونے والے ان اعداد و شمار میں تفریق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مرکز اور ریاستوں کے اعداد و شمار کے حوالے سے بہار میں اٹھارہ لاکھ بچوں کی تعداد کا فرق دیکھنے ملا ہے اور مغربی بنگال میں چودہ لاکھ بچوں کی تعداد کا فرق دیکھنے ملا ہے۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وبا کی وجہ سے مرکز اور ریاستوں پر زبردست مالی دباو پیدا ہوگیا ہے اور اس وجہ سے فنڈز کی فراہمی کو کنٹرول کیا جارہا ہے لیکن اس کے نتیجے میں ہماری منصوبہ بندی، بجٹ اور فنڈز کی فراہمی کا نظام متاثر ہورہا ہے۔ مڈ ڈے میلز سکیم کو عملانے میں ناکامی کے نتیجے میں غذائیت کی کمی کا بحران پیدا ہونے سے متعلق سپریم کو رٹ کا یہ خدشہ عملی صورت میں صیح ثابت ہوسکتا ہے۔

اوانی کپور، سینٹر فار پالیسی کے اکاونٹی بلٹی انی شیٹیو کے ڈائریکٹر ہیں۔

شرد پانڈے۔ سینٹر فار پالیسی کے اکاونٹی بلٹی انی شیٹیو کے ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details